بے روزگاری اور قرض کے شکنجے میں پھنسے افغان شہری نورالدین نے جب محسوس کیا کہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ان کے پاس گردہ بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، تو وہ فوراً اپنا عضو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ رواج افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ ایک قریبی بستی کو ’ایک گردے والوں کا گاؤں‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔
ایران کی سرحد کے قریب واقع اس شہر کے رہائشی نورالدین نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے اپنے بچوں کی خاطر یہ کرنا پڑا۔ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
گذشتہ برس اگست میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کئی دہائیوں سے شورش کے شکار اس ملک میں انسانی بحران اپنے عروج پر ہے۔
افغانستان کو ملنے والی غیر ملکی امداد، جس نے اس ملک کو کچھ سہارا دیا تھا، طالبان کے آنے کے بعد اس میں بھی کافی کمی آئی اور اس ساری صورت حال نے نور الدین جیسے افغانوں کو شدید متاثر کیا ہے، جنہوں نے اپنی فیکٹری کی ملازمت اس وقت چھوڑ دی جب طالبان کی واپسی کے فوراً بعد ان کی تنخواہ میں تین ہزار افغانی (تقریباً 30 ڈالر) کی کمی کر دی گئی تھی۔
نورالدین کو یقین تھا کہ وہ کچھ بہتر ملازمت تلاش کرلیں گے، لیکن وہ غلطی پر تھے، کیونکہ ملک میں ہزاروں بے روزگاروں کی موجودگی میں ملازمت کے مواقع موجود نہیں تھے۔
اسی مایوسی کے عالم میں نورالدین نے اپنا ایک گردہ بیچ دیا۔
اے ایف پی سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’مجھے اب اس پر افسوس ہے۔ میں مزید کام نہیں کر سکتا۔ میں تکلیف میں ہوں اور کوئی بھاری چیز نہیں اٹھا سکتا۔‘
نور الدین کا خاندان اب گزر بسر کے لیے اپنے 12 سالہ بیٹے کی کمائی پر انحصار کرتا ہے، جو جوتے پالش کرتا ہے۔
1500 ڈالر میں ایک گردہ
نورالدین ان آٹھ لوگوں میں شامل ہیں، جن سے اے ایف پی نے بات کی اور جنہوں نے اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے یا قرض ادا کرنے کے لیے اپنا گردہ فروخت کیا۔ کچھ نے اپنا یہ قیمتی عضو 1500 سے بھی کم ڈالر میں فروخت کردیا۔
بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اعضا کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے، جہاں عطیہ دہندگان عام طور پر اعضا وصول کرنے والوں کے رشتے دار ہوتے ہیں یا وہ لوگ جو ہمدردی یا ایثار کے جذبے کے تحت اعضا عطیہ کرتے ہیں، تاہم افغانستان میں یہ عمل غیر منظم ہے۔
افغانستان کے شمالی شہر مزار شریف ایک ہسپتال کے سابق سرجن پروفیسر محمد وکیل متین نے اے ایف پی کو بتایا: ’اعضا کو عطیہ کرنے یا اس کی خرید و فروخت کے حوالے سے یہاں کوئی قانون نہیں ہے، لیکن عطیہ کرنے والے کی رضامندی ضروری ہے۔‘
افغانستان کے شہر ہرات کے دو ہسپتال، جہاں اعضا ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں، میں سے ایک میں بطور سرجن کام کرنے والے محمد بصیر عثمانی نے بھی تصدیق کی کہ ’رضامندی‘ اہم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’ہم ان سے تحریری رضامندی اور ویڈیو بھی لیتے ہیں، خاص کر عطیہ کرنے والے سے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ پانچ سالوں میں ہرات میں سینکڑوں سرجریز کی گئی ہیں۔
بقول ڈاکٹر بصیر عثمانی: ’ہم نے کبھی تحقیق نہیں کی کہ مریض یا عطیہ کرنے والا کہاں سے آتا ہے؟ یا کیسے؟ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔‘
اے ایف پی کے مطابق اگرچہ افغان طالبان نے اس خبر پر کوئی تبصرہ دینے سے گریز کیا، تاہم ڈاکٹر بصیر عثمانی نے بتایا کہ ملک کے نئے حکمرانوں کے پاس اعضا کی تجارت کو روکنے کا ایک منصوبہ ہے اور وہ اسے منظم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے رہے ہیں۔
پیسوں کے حصول کے لیے بے چین افغان شہریوں کا عام طور پر بروکرز (ایجنٹس) کے ذریعے مالدار مریضوں سے رابطہ ہوتا ہے، جو ملک بھر سے ہرات کا سفر کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کا تعلق بھارت اور پاکستان سے بھی ہوتا ہے جبکہ ہسپتال کی فیس اور عطیہ کرنے والے کو رقم بھی وصول کنندہ ادا کرتا ہے۔
افغان شہری ازیتا کے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے تین میں سے دو بچے غذائی قلت کا شکار ہوگئے۔ اس صورت حال میں انہیں محسوس ہوا کہ ان کے پاس اپنا کوئی عضو بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، جس کے بعد وہ ایک بروکر سے ملیں، جس نے انہیں جنوبی افغان صوبے نمروز سے تعلق رکھنے والے ایک مریض سے ملوایا۔
ازیتا نے بتایا: ’میں نے اپنا گردہ ڈھائی لاکھ افغانی (2500 ڈالر) میں فروخت کردیا۔‘
’مجھے یہ کرنا پڑا۔ میرے شوہر کوئی کام نہیں کرتے۔ ان کے اوپر قرضہ ہے۔‘
اب ازیتا کے شوہر، جو دیہاڑی دار مزدور ہیں، یہی کام کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’لوگ غریب ہوگئے ہیں۔ بہت سے لوگ مایوسی کے عالم میں اپنا گردہ بیچ رہے ہیں۔‘
’ایک گردے والوں کا گاؤں‘
ہرات کے مضافات میں واقع سیشنبہ بازار نامی گاؤں، کئی سالوں کے تنازعات کے باعث بے گھر ہونے والے سینکڑوں لوگوں پر مشتمل ہے۔
اس گاؤں کو ’ایک گردے والوں کا گاؤں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے درجنوں رہائشیوں نے پیسوں کے حصول کے لیے اپنے اعضا فروخت کر رکھے ہیں۔
اس گاؤں کے رہائشی ایک ہی خاندان کے پانچ بھائیوں نے گذشتہ چار سالوں میں یہ سوچ کر اپنے گردے بیچے کہ اس طرح ان کی غربت ختم ہوجائے گی۔
اے ایف پی سے گفتگو میں اپنے زخم دکھاتے ہوئے غلام نبی نے بتایا: ’ہم اب بھی مقروض ہیں اور پہلے کی طرح غریب۔‘
ترقی یافتہ ممالک میں، عطیہ کرنے والے اور وصول کرنے والے عام طور پر مکمل اور نارمل زندگی گزارتے ہیں، لیکن سرجری کے بعد ان کی صحت کی نگرانی کی جاتی ہے اور اس کا دارومدار متوازن طرز زندگی اور خوراک پر بھی ہوتا ہے۔
تاہم یہ سہولیات اور آسائشیں اکثر غریب افغانوں کو میسر نہیں ہیں، جو گردہ فروخت کرنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا پاتے ہیں اور ان کی صحت بھی خراب رہتی ہے۔
پروفیسر متین نے بتایا کہ اعضا عطیہ کرنے والے محض چند لوگوں نے ہی فالو اپ چیک کا انتظام کیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’گردے فروخت کرنے والوں اور عطیہ دہندگان کی رجسٹریشن کے لیے صحت عامہ کی کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں تاکہ یہ جانا جاسکے کہ ان کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
19 سالہ شکیلہ، جو دو بچوں کی والدہ ہیں، طالبان کے اقتدار میں آنے سے کچھ عرصہ قبل ہی ہرات کے ایک ہسپتال میں اس طریقہ کار سے گزری تھیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
شکیلہ نے اپنے خاندان کا قرضہ چکانے کے لیے اپنا گردہ 1500 ڈالر میں فروخت کردیا۔
دوسری جانب تین بچوں کی والدہ عزیزہ، ہسپتال کے عملے کے ایک رکن سے ملنے کے بعد موقعے کا انتظار کر رہی ہیں، جو انہیں ایک ڈونر سے ملانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے آنسوؤں کے درمیان اے ایف پی کو بتایا: ’میرے بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ اگر میں اپنا گردہ فروخت نہیں کرتی تو میں اپنی ایک سالہ بیٹی کو بیچنے پر مجبور ہو جاؤں گی۔‘