پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی بحریہ نے بھارتی آبدوز کی پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہو کر معلومات اکٹھی کرنے اور جاسوسی کرنے کی ایک اور کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ گذشتہ پانچ برسوں میں چار مرتبہ بھارتی آبدوزیں پاکستان کے سمندری پانیوں میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے آ چکی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’موجودہ سکیورٹی ماحول اور پاک بحریہ کی جاری مشق سی سپارک -22 کے دوران یہ اہم واقعہ ہے۔ بھارتی آبدوز پاکستان کی سمندری حدود میں جاسوسی اور مشق سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کے لئے آئی تھی۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ’بھارتی بحریہ نے اپنی آبدوز کو مذموم مقاصد کے ساتھ پاکستان کے خلاف تعینات کیا تھا لیکن پاک بحریہ نے مشقوں کے دوران سخت نگرانی اور چوکنا رہنے کے طریقہ کار کا اطلاق کیا تھا۔‘
یہ واقعہ کب پیش آیا؟
آئی ایس پی آر کے مطابق ’پاکستان نیوی کی اینٹی سب میرین وارفیئر یونٹ نے یکم مارچ کو جدید ترین ہندوستانی آبدوز کلوری کو قبل از وقت روکا اور ٹریک کیا۔‘
اس حوالے سے مزید معلومات لینے کے لیے پاکستانی بحریہ سے رابطہ کیا گیا تو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیوی حکام نے بتایا کہ ’آبدوز کا کام ہی یہی ہے کہ نظر میں آئے بغیر خفیہ مشن کرے۔ آبدوز گہرے پانیوں میں ہوتی ہے لیکن صرف بیٹری ختم ہونے کی صورت میں اُسے سطح پر آ کر چارج کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے پہلے 2016 میں بھی پاکستان نے بھارتی آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال پر کہ آبدوز پاکستانی پانیوں کے کتنے قریب تھی، حکام کا کہنا تھا کہ یہ آبدوز پاکستانی پانیوں کی حدود کے اندر تھی۔ بارہ ناٹیکل میل کا علاقہ تو ابتدائی سمندری حدود ہے جسے ٹیری ٹوریل واٹر کہا جاتا ہے جس کے بعد ایکسلوسیو اکنامک زون کا علاقہ ہے، جو 220 ناٹیکل میل تک ہوتا ہے۔ یہ علاقہ ہوتا تو بین الاقوامی پانی ہے لیکن اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق یہ پاکستان کی حدود میں آتا ہے۔ جہاں مچھلی رانی یا معدنیات تلاش کی جاتی ہیں۔‘
حکام کے مطابق ’یہ ہمارا علاقہ ہے اور سب ممالک اس کی سالمیت کی عزت کرتے ہیں۔ یہ بھارتی آبدوز پاکستان سے 70 ناٹیکل میل کے فاصلے پر تھی یعنی بین الاقوامی قوانین کے مطابق 220 ناٹیکل میل کے اندر کے علاقے میں تھی جس کا مطلب ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف کی گئی ہے۔‘
بھارتی آبدوز کا سراغ لگانے کے بعد کیا کیا گیا؟
اس سوال کے جواب میں نیوی حکام نے بتایا کہ ’آبدوز کا سراغ لگانے کے بعد حملہ نہیں کیا جاتا اور پاکستان ویسے بھی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر کا معاہدہ بھی جاری ہے۔‘
حکام کا مزید کہنا تھا کہ ’آبدوز جب سطح پر بیٹری چارج کرنے کی غرض سے آئی تو اُن کو بھی علم ہو گیا تھا کہ پاکستان نیوی نے اُن کا سراغ لگا لیا ہے۔‘
نیوی حکام کے مطابق ’پاکستان نیوی کے سکیورٹی اہلکاروں نے آبدوز کی جہاز سے وڈیو بنائی۔ انہیں احساس دلایا کہ وہ پاکستان بحریہ کے نشانے پر ہیں لیکن پاکستان نے جارحانہ رویہ نہیں اپنایا۔ اُس کے بعد تکنیکی طور پر آبدوز کو وہاں سے باہر دھکیل دیا گیا۔‘