میں آپ کو ایک ایسے وقت کے بارے میں بتاتی ہوں جب پتنگیں وادیوں اور پہاڑوں میں اونچا اڑتی تھیں۔ یہ ایک ایسی سرزمین تھی جس کو بہت سے لوگ اپنا گھر کہتے تھے۔
افغانستان میں فضا جیسے ہی روٹی اور چائے کی تازہ خوشبو اور موسیقی کی خوش کن آوازوں سے بھر جاتی تو امن اور خوشحالی کی سرگوشیاں گلیوں کو جوش و خروش سے رنگ دیتی تھیں۔
1979 میں افغانستان پر سوویت حملے سے پہلے یہ ملک ثقافت، تاریخ اور پوشیدہ جواہرات میں پھل پھول رہا تھا۔ جب جنگ نے اس ملک پر مسلط ہو کر بہت سوں کو اندھا کر دیا تو یہ جواہرات چوری ہو گئے۔ باہر سے آئے لوگوں نے میرے وطن کو تارتار کر دیا اور بدقسمتی سے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہی۔
یوکرین میں موجودہ تنازع بہت سے افغانوں کو ان کے اپنے ملک کی یاد دلاتا ہے۔ دردناک یادوں پر نظر ڈالتے ہوئے میں نے اپنی والدہ سے بات کی جو انتہائی مضبوط خاتون تھیں جو اپنے پیاروں کو بہترین ممکنہ زندگی دینے کے لیے ملکوں ملکوں ہجرت کرتی رہیں۔
میری والدہ نے بھی جنگ کے دوران زندگی گزارنے والی بہت سی دیگر ماؤں کی طرح بڑی مشکل اور تکلیف کے دور میں بچوں کی پرورش کی۔ ان کا جسم ان کے بچوں کے لیے حفاظتی کمبل تھا، کیونکہ وہ ناقابل برداشت لمحات میں میرے بہن بھائیوں کے لیے ڈھال بنیں۔ ایسے لمحات جو ہم سب کو عاجز بنائیں اور پوری دنیا میں جنگ کا سامنا کرنے والوں کے لیے ہمدردی پیدا کریں۔
دنیا اکثر ایسے تنازعات سے بے حس ہوتی ہے جو مغرب سے بہت دور ہیں۔ لوگ اکثر ہمیں’غیر مہذب‘ قرار دیتے ہیں اور اگرچہ صحافی ان کے نسلی تعصبات کے متعلق بات کرتے رہتے ہیں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر انسان کی زندگی اہم ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی نسل یا مذہب سے ہو۔
بہت سے افغان مسلسل دعا کرتے رہتے تھے کہ وہ مارے نہ جائیں، جیسا کہ وہ آج کرتے ہیں۔ ایک دن پنجشیر میں ایک اعلان کیا گیا: ’روسی کل ہم پر حملہ کرنے والے ہیں، سب کو گھر چھوڑ دینا چاہیے۔‘ لیکن افسوسناک حقیقت یہ تھی کہ بھاگنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
زیادہ تر گھروں میں بم سے بچنے کے لیے پناہ گاہیں تھیں لیکن میری ماں، جو شدید کلاسٹروفوبیا میں مبتلا ہیں، انہیں ایک اور دن اس پناہ گاہ میں پھنسے رہنے سے نفرت تھی۔ یہ وہ دن تھا جب انہوں نے ایک پناہ گاہ میں جانے سے انکار کر دیا، وہ گھر میں رہیں اور میرے بھائی کو قریب پکڑ کر اپنے پیاروں کی حفاظت کے لیے دعا کرتی رہیں۔
راکٹ بارش کے قطروں کی طرح گرنے لگے، لیکن یہ مہلک اور کبھی نہ بھولنے والے تھے۔ ایک راکٹ میری والدہ کے باغ میں گر کر بیری کے درخت سے ٹکرا گیا جس سے گھر کا ایک بڑا حصہ غائب ہو گیا۔ میرا بھائی خوف کی وجہ سے گھر سے باہر بھاگا اور میری ماں جلدی سے اس کے پیچھے دوڑی۔
امن تیزی سے انتشار میں بدل گیا۔ میرا بھائی، جو اس وقت پانچ سال کا تھا، اس کا بچپن اس سے چھین لیا گیا تھا۔ لوری آہستہ آہستہ راکٹوں اور بموں کی آواز میں بدل گئی اور ایک بچے کی ہنسی کی آواز آنسوؤں میں بدل گئی- افغانستان کی معصومیت چھین لی گئی۔
ایک اونچی آواز نے میری ماں کے کانوں کو چھید ڈالا: ’میں دوڑ رہی تھی، آپ کے بھائی کو تلاش کر رہی تھی، چیخ رہی تھی اور رو رہی تھی۔‘ انہوں نے چیخ کر کہا: ’وہ کہاں ہے، میرا بیٹا کہاں ہے؟‘
میری والدہ نے مجھے بتایا:’میں نے لاشوں پر لاشیں دیکھی تھیں، گلیاں خون سے رنگی ہوئی تھیں، ایک ایسی تصویر جس میں کبھی نہیں بھول سکتی۔‘
ان کا سامنا قریب المرگ ایک شخص سے ہوا، جس کی ٹانگیں اس کے جسم سے الگ تھیں۔ وہ اپنی آخری سانس لیتے ہوئے مدد کے لیے بڑبڑا رہا تھا۔ دھویں اور ملبے سے لڑ کر گزرتے ہوئے، آخری کار میری ماں کو میرا بھائی دوبارہ مل گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تکلیف میں میری ماں اپنی بہن کو تلاش کرنے کے لیے دوڑی۔ اس دن میری خالہ اور ان کی بیٹیوں نے بم پناہ گاہ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ پلک جھپکتے ہی وہ محفوظ جگہ ختم ہو گئی۔ ایک راکٹ پناہ گاہ سے ٹکرایا۔ ملبے کے نیچے دو چھوٹے بچوں کی لاشیں پڑی تھیں، جو وہاں ہاتھ میں ہاتھ تھامے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی والدہ زخمی ہو گئیں، درد میں حرکت کرنے سے قاصر تھیں۔
میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ’میں نے لاشیں دیکھی تھیں، میری بھانجیوں نے ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور انہوں نے آخری لمحے تک ایک دوسرے کو نہیں جانے دیا۔ یہ حملہ افغانستان پر سوویت حملے کے دوران پیش آنے والے بہت سے دل دہلا دینے والے واقعات میں سے ایک تھا۔‘
حملے کے پانچویں سال بعد بالآخر میرا خاندان افغانستان چھوڑ کر آٹھ سال کے لیے پاکستان چلا گیا۔ کئی سالوں تک ہجرت کرنے اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونے کے بعد میرا خاندان بالآخر 1995 میں برطانیہ پہنچ گیا۔
’تاریخ ہماری جڑوں میں گہری اتری ہوئی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کے درد کو نہیں بھول سکتے، بھولنا غداری ہو گی۔‘
یوکرین میں جنگ بہت سے افغانوں کے لیے ایک بہت زیادہ معروف بیانیہ ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل فراموش یاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کو ان پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔
ہم یوکرین، افغانستان، شام، یمن اور فلسطین کے عوام کو نہیں بھول سکتے۔ ہر کوئی زندگی میں ایک موقع کا مستحق ہے، ہر کوئی ایک عام زندگی کا مستحق ہے۔
ہمیں مزید کام کرنا ہو گا اور ہمیں اس جنگ کو روکنے کے لیے اکٹھے کھڑے ہونا پڑے گا۔
© The Independent