پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں حکومت سے زیادہ ووٹ حاصل کریں گے۔
اسلام آباد میں منگل کی شام ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان، شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے صحافیوں سے بات کی۔
پریس کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد سب کے اتفاق سے جمع کروائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ منگل کو ہی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والے اپوزیشن اراکین میں ایاز صادق، مریم اورنگزیب، شازیہ مری، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ اور نوید قمر شامل ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں اعداد کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہم ان کو لائیں گے بھی اور 172 سے زیادہ ووٹ لیں گے۔‘
آصف علی زرداری نے کہا کہ ’ہم سب نے سوچا ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ اس لیے ہم سب ساتھ آئے ہیں۔‘
’ہم نے مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی اکیلی پارٹی پاکستان کو اس مشکل سے نہیں نکال سکتی۔‘
انہوں نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ’میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ سینیئر صحافی حامد میر بحال ہو گئے ہیں۔‘
اس سے قبل مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ متفقہ طور پر قومی اسمبلی سیکیریٹ میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی ہے اور اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔
انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جو کرنا تھا کر لیا ہے۔‘
حکومتی ردعمل
اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی پریس کانفرنس کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے بھی ایک پریس کانفرنس کی ہے۔
اس پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کا ان کو پیغام ہے کہ نہ تو ان کو این آر او ملے گا بلکہ 37ویں بار اس تحریک عدم اعتماد میں بھی انہیں شکست دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگلے ہفتے کے اندر اندر آپ کو دکھائیں گے کہ کس طریقے سے ہم انہیں شکست بھی دیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ان کا بوریا بستر بند کریں گے۔‘
عدم اعتماد کی تحریک کے بعد کیا ہوگا؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو فلور کراسنگ قانون کے تحت آئندہ بننے والا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ زیادہ دیر اپنی تعداد میں برتری برقرار نہیں رکھ سکے گا، کیونکہ اپوزیشن کا ساتھ دینے والے اتحادی یا حکومتی اراکین کی رکنیت معطل کرائی جاسکتی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت جمع کروائی گئی ہے۔ دوسری جانب آئین کا آرٹیکل 95 واضح طور پر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کارروائی سات دن کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔
پاكستان میں كسی منتخب سربراہ حكومت (وزیراعظم) كے خلاف تحریک عدم اعتماد كی كامیابی یا ناكامی كا انحصار قومی اسمبلی میں حلیف اور حریف اراكین كی تعداد كے فرق پر منحصر ہوتا ہے، اور موجودہ ایوان میں اسی نمبرز گیم كی تبدیلی یا عدم تبدیلی وزیر اعظم عمران خان كے مستقبل كا فیصلہ كرے گی۔
ہم اپوزیشن کی عدم اعتماد کو ویلکم کرتے ہیں۔ عمران خان کا اپنی قوم کے لئے پیغام ہے کہ وہ ہر صورت اس خریدو فروخت کا مقابلہ کریں گے۔ عمران خان کسی صورت ان چوروں کو NRO نہیں دیں گے۔
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) March 8, 2022
خان مقابلے کے لئے تیار ہے اور ان کو ان پانچ سالوں کی آخری شکست دیں گے۔پوری قوم خان کے ساتھ کھڑی ہے
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں یوٹیوبرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے۔‘
تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ اپوزیشن کی آخری واردات ہے، اس کے بعد 2028 تک کچھ نہیں ہو گا۔‘
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’ہم اپوزیشن کی عدم اعتماد کو ویلکم کرتے ہیں۔‘
شہباز گل نے لکھا کہ ’عمران خان کا اپنی قوم کے لیے پیغام ہے کہ وہ ہر صورت اس خرید و فروخت کا مقابلہ کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’عمران خان کسی صورت ان چوروں کو این آر او نہیں دیں گے۔ خان مقابلے کے لیے تیار ہے اور ان کو ان پانچ سالوں کی آخری شکست دیں گے۔ پوری قوم خان کے ساتھ کھڑی ہے۔‘
نمبر گیم کیا ہے؟
سال 2018 كے انتخابات كے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاكستان تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں كی حمایت سے وفاقی حكومت بنا ركھی ہے۔
پاكستان میں وفاقی حكومت كو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف كے 155 اراكین كے علاوہ مسلم لیگ ق (5)، متحدہ قومی موومنٹ پاكستان (7)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (3)، عوامی مسلم لیگ (1)، بلوچستان عوامی پارٹی (5)، جمہوری وطن پارٹی (1) اور دو آزاد اراكین اسمبلی كی حمایت حاصل ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق صوبائی وزیر علیم خان نے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے گروپ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔اس موقع پر علیم خان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد آئی تو ’ہم سب مل کر فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے بعض وزرا و اراکین یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع ہی نہیں کرائی جائے گی جبکہ کچھ کا یہ کہنا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد جمع ہو بھی گئی تو ’کامیاب‘ نہیں ہو سکے گی۔