یہاں ہر ہفتے امریکہ کے قانون اور تمدن سے آشنائی کے متعلق تربیتی ورکشاپ ہوتی ہے، خاص کر ان خواتین کے لیے جو ناخواندہ ہیں اور پمفلٹ نہیں پڑھ سکتیں انہیں وڈیوز اور آڈیوز کے ذریعے سیکھایا جاتا ہے۔
ہر ہفتے وہ نئے موضوعات پہ بات کرتے ہیں۔ میں بھی حرفوں سے انجان بنی اس ورکشاپ میں شامل ہو گئی۔ ورکشاپ میں امریکن خاتون سارہ نے جب ماؤں سے کہا بچوں پہ ہاتھ اٹھانا جرم ہے تو ماؤں کے ماتھے ٹھنکے۔ ایک نے تو کہنی مار کر میرے کان میں کھسر پھسر کی کہ ’بھلے جیل چلی جاؤں مگر بچوں کو شتر بے مہار نہیں چھوڑ سکتی۔ ان کے بچے تو کلبوں اور پبوں میں ناچتے ہیں ہمارے بچے تو ہمارے سروں پہ ناچتے ہیں۔ ان کو کیا پتہ ہمارے بچوں کو کیسے کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔‘
ایک عورت نے سارہ سے سوال کیا ’بچے جب آپس میں لڑ رہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟‘
اس نے جواب دیا، ’صلح صفائی اور تحمل۔‘
پھر ایک عورت بولی، ’اچھا اگر ہم گھر کے اندر اپنے بچے کو چھپ چھپ کر ماریں تو حکومت کو کیسے پتہ چلے گا؟‘
اس سوال پہ سب ہنسنے لگے۔ سارہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ایسا سوچیں بھی مت۔ آپ کے بچے یا پڑوسیوں نے شکایت کر دی تو جیل جانا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے آپ کا بچہ آپ سے لے کر فوسٹر والدین کو سونپ دیا جائے۔‘
سوال کرنے والی خاتون کی بھنویں سکڑ گئیں۔ یہ سب کچھ افغان عورتوں کے لیے حیرت ناک تھا۔ جب وہ ورکشاپ سے باہر نکلیں تو ان کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ یہاں بچوں کو مارنا منع ہے اور افغانستان میں تو بچوں کو لاتوں کا بھوت سمجھا جاتا ہے۔ بزرگ سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ تربیت کا اہم حصہ ہے، جو والدین اپنے بچوں کو پیار پچکار سے سمجھاتے ہیں ان کے بچے خود سر ہو جاتے ہیں۔
یہی فارمولا سکول میں بھی اپنایا جاتا ہے۔ مار مار کر بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ سزا کی دھمکیاں دے کر سبق رٹوایا جاتا ہے۔ کلاس کا ماحول اتنا سنجیدہ ہوتا ہے جیسے وہاں بچے نہیں بیوروکریٹ بیٹھے ہوں۔
امریکہ آ کر افغان بچوں کا سارا ڈر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ کیمپ میں انہوں نے دھڑلے سے موج مستی کرنا شروع کر دی۔ موج مستی پھر دھینگا مشتی اور کشتی پہ ختم ہونے لگی۔ ہر طبقے اور ماحول کے بچے ایک جگہ جمع ہونے سے ہمارے جیسے والدین کے لیے کیمپ درد سر بن چکا ہے۔
ہم نے ہمیشہ گھر اور سکول میں اپنے بچوں کو بہترین ماحول دیا۔ بہت غصہ آتا تو ’بے شرف!‘ کہہ کر ٹھنڈا کر دیتے۔ وہ بھی ایک دوسرے کو خفگی میں یہی کہتے۔ یہاں آ کر میرے بچوں نے وہ گالیاں سیکھ لیں جو ان کے والدین نے کبھی سنی بھی نہیں تھیں۔ افسوس، بھانت بھانت کے بچوں نے مل کر ہماری ساری محنت برباد کر دی۔ اب روز ان کو سیکھانا پڑتا ہے کہ گالی کا جواب گالی سے دیا جائے تو اچھے برے میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔
روز کوئی نہ کوئی بچہ شکایت لے کر کسی نہ کسی دروازے پہ کھڑا ہوتا ہے کہ ’خالہ، تمھارے بیٹے نے پتھر مارا، بال کھینچے یا گالیاں دیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئی نہ کوئی ماں امریکہ کے قانون کو کوستے ہوئے کہتی ہے ’ستیاناس ہو اس کا۔ اس لڑکے کا میں کیا کروں؟ میرے تو خود ہاتھ بندھے ہیں۔ دل تو میرا بھی کرتا ہے اسے مار مار کر بھرکس نکال دوں مگر پولیس سے ڈرتی ہوں پکڑ کر لے جائے گی مجھے۔‘
بچوں کو یہاں آتے ہی نائن ون ون کا سبق ایسے رٹوایا گیا کہ وہ شرارت کر کے والدین سے کہتے ہیں ’مار کے دکھاؤ!‘
نہیں معلوم اندر خانے افغان بچے کب تک اپنے والدین کا صبر آزمائیں گے یا حالات سدھر جائیں گے۔ سوچتی ہوں یہ بچے جو آج ایک دوسرے سے کھیلتے کھیلتے گتھم گتھا ہو جاتے ہیں جلد ہی تمدن سیکھ جائیں گے۔ ماں بہن کی موٹی موٹی گالیاں جو پشتو اور فارسی میں دیتے ہیں انگریزی میں دیا کریں گے۔ البتہ مار کٹائی سے شاید گریز کرلیں۔
یہاں عورتوں پہ بھی ہاتھ اٹھانا جرم ہے گو کہ افغان مرد خود بھی عورتوں پہ ہاتھ اٹھانا بےغیرتی سمجھتے ہیں مگر اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں عورتیں بچوں کی طرح ’مار کے دکھاؤ‘ والی دھمکی دینے سے بھی گریز کریں گی۔ کیوں کہ ایک تو افغان عورتوں میں مشرقیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے دوسرا ان کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ ریشم سے بھی نازک ڈور سے بندھا ہے۔ رشتہ نہ بھی ٹوٹے مگر سزا کے طور پہ سوکن ضرور سر پہ آ بیٹھے گی۔
البتہ بچوں نے نائن ون ون کا سبق جو سیکھ لیا ہے اس سے شاید گھر کا ماحول کشیدہ ہونے سے بچ جائے۔ یہ ڈر سلامت رہے تو بچوں اور خواتین کو وہ حقوق ملنے کی توقع ہے جن پہ افغانستان میں کبھی عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے اور محبت سے محبت پیدا ہوتی ہے۔
خیرات کی طرح امن کو بھی گھر سے شروع کرنا چاہیے تاکہ وہ روشنی کی طرح کھڑکیوں دروازوں اور روشندانوں سے باہر نکل کر پھیل سکے۔