جنوبی وزیرستان کا شمار دنیا کے چند خطرناک ترین علاقوں میں ہوتا تھا کیوں کہ نائن الیون حملے کے بعد یہ خطہ دہشت گردوں کی آماج گاہ بن گیا ہے لیکن آج فوجی آپریشن کے بعد حالات معمول پر ہیں۔
ریاستی رِٹ قائم کرنے کیلئے افواج پاکستان نے ایک طویل جنگ لڑی۔ آج بھی آپریشن ردالفساد کے تحت پورے پاکستان میں دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں۔
آج 2022 میں جنوبی وزیرستان کے حالات یکسر تبدیل نظر آتے ہیں۔
انگور اڈہ میں اہم تجارتی راہداری مکمل طور پر فعال ہے۔ یہاں 200 سے زائد گاڑیاں اور ٹرک روزانہ کی بنیاد پر بارڈر پار کرتے ہیں۔ اس ٹرمینل کے فعال ہونے سے جہاں ایک جانب جہاں افراد کی آمد و رفت کو دستاویزی شکل ملی ہے وہیں سمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کو بھی کنٹرول کرنا آسان ہو گیا ہے۔
اس بارڈر کراسنگ پر ایف آئی اے کی موجودگی، این ایل سی ٹرمینل کے لیے زمین کا حصول، گاڑی اور سامان کی جانچ پڑتال کے لیے سکینر کی دستیابی جیسی سہولیات کی وجہ سے آنے والے دنوں میں تجارت کا حجم بڑھا دے گا اور افغانستان پاکستان کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔
وادی برمال میں واقع تحصیل انگور اڈہ جسے افغانستان کی عوام لیو اڈہ کہتی ہے، اس کی 100 فیصد آبادی وزیر قبیلے پر مشتمل ہے۔
یہاں احمد زئی وزیر قبیلہ بارڈر کے دونوں اطراف آباد ہے۔ وزیر قبیلے کے تقریباً 15 ہزار افراد پاکستان جب کہ دس ہزار سے زائد افراد افغانستان میں مقیم ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی غمی میں یہ انگور اڈہ بارڈر کے ذریعے نقل و حرکت کرتے ہیں۔
انگور اڈہ پر عطااللہ نامی ایک تاجر سے جب بات ہوئی تو انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انگور اڈہ بارڈر پر گزشتہ 18 ماہ سے کسٹم ایجینٹس موجود ہیں جنھوں نے کلیئرنس کے عمل کو انتہائی تیز اور موئثر بنایا ہے۔‘
عطا نے مزید کہاکہ ’بارڈر فینسنگ پر سیکورٹی فورسز کے کردار کو سراہتے ہوئے عطااللہ کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے سے سیکورٹی کے مسائل حل ہوئے ہیں جس کی بدولت آزادانہ گھوما پھرا جاسکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ تین ماہ کی رپورٹ کے مطابق ہمارے کاروبار میں بہتری آئی ہے اور رواں ماہ زیادہ مال برآمد کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی جانب سے بارڈر پر باڑ لگانے کا کام کافی عرصے پہلے ہی شروع کر دیا گیا تھا اور پاک افغان بارڈر پر مکمل باڑ لگا دی گئی ہے۔
ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان امجد معراج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب ہماری بات ہوئی تو انھوں نے کہا علاقے کا امن و امان 100 فیصد بحال ہے۔‘
سینئیر صحافی متین حیدر کے مطابق ’ماضی میں ان علاقوں میں نقل و حرکت کیلئے دہشتگردوں سے کلیئرنس کی ضرورت تھی۔‘
صحافی متین حیدر نے تجویز پیش کی کہ ’ان علاقوں میں کمرشل بینکوں کا قیام ضروری ہے جس سے نہ صرف مقامی آبادی بلکہ تاجر بھی فیض یاب ہوسکیں گے۔‘
جو علاقہ ایک زمانے میں دہشت کی علامت ہوا کرتا تھا آج وہاں چہروں پر خوف کے بجائے مسکراہٹیں ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے میوزیم میں تصاویر کے ذریعے علاقے کی خوبصورتی کو نہ صرف اجاگر کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک طویل عرصے تک ان علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کا راج تھا۔
یاد رہے کہ حالیہ چند ماہ میں پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آرہی ہے۔
یہاں چیلنج یہ بھی ہے کہ کس طرح ان علاقوں میں امن و امان کو برقرار رکھا جائے۔ ایسے میں وزیرستان کی عوام کو نوکریاں، کاروبار اور تجارت کے مزید مواقعے فراہم کرنا بھی ضروری ہے تا کہ معاشی ترقی سے ہر ممکنہ دہشت گردی کے خطرے کو ناکام بنایا جاسکے۔