خاندان کے چار افراد کو قتل کرنے والا گیمر کیسے پکڑا گیا؟

کینیڈا کے رہائشی منہاز زمان نے 27 جولائی 2019 کو نو گھنٹے میں اپنے والدین، دادی اور بہن کا قتل کر کے گیمنگ کمیونٹی میں پوسٹ کر دیا جس کے بعد ان کے آن لائن دوستوں نے ان کی کھوج شروع کی۔

منہاز زمان  (دائیں)  نےڈسکورڈ گیمنگ سرور پر اپنے ہاتھوں قتل کی اطلاع دی (انڈپینڈنٹ اردو)

27 جولائی 2019 کو منہاز زمان نے اپنے خاندان کے چار افراد کو قتل کر دیا۔ عدالت میں استعمال ہونے والے حقائق کے بیان کے مطابق کینیڈا کے رہائشی زمان نے نو گھنٹے میں اپنی ماں، اپنی دادی، اپنی بہن اور اپنے والد کو قتل کیا۔

پھر، متعدد رپورٹس اور اب ایک دستاویزی فلم کے مطابق، زمان نے قتل کی وارداتوں کا اعتراف کیا اور گیمنگ سرور پر دوستوں کو بتایا کہ انہوں نے ابھی ابھی (اپنے) پورے خاندان کو قتل کر دیا۔

پیغامات ’ڈسکورڈ‘ پر پوسٹ کیے گئے۔ یہ ایسی سروس ہے جس کے ذریعے صارفین مخصوص کمپیوٹر سرورز پر ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ گلوبل نیوز نے 2019 میں رپورٹ کیا کہ پرفیکٹ ورلڈ ووئڈ کہلانے والا یہ سرور پرفیکٹ ورلڈ نامی آن لائن کھیل کے لیے مخصوص تھا جو کئی کھلاڑی کھیلتے ہیں۔

زمان کے اعتراف کے وقت سرور پر موجود دوسرے صارفین انہیں صرف ان کے اکاؤنٹ پر موجود نام منہاز سے جانتے تھے۔ وہ ان کا پورا نام یا شناخت کی کوئی تفصیلات نہیں جانتے تھے، نہ ہی ان کا پتہ۔

دوسرے الفاظ میں اکاؤنٹ کے پیچھے موجود شخص نے کئی لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا اور، 2019 میں ’وائس‘ نامی جریدے کی تحقیقات کے مطابق، لوگوں کے ایک ایسے گروپ کو مبینہ طور پر جائے وقوعہ کی دل دہلا دینے والی تصاویر بھیجیں جو منہاز کے بارے میں حکام کو کچھ زیادہ نہیں بتا سکتے تھے۔

جب منہاز کے اکاؤنٹ سے قتل کی وارتوں کے بارے میں اطلاع پوسٹ کی گئی تو ڈسکورڈ سرور کے دوسرے صارفین فوری طور پر حرکت میں آ گئے۔ انہوں نے ایسی معلومات کی تلاش شروع کر دی جن سے شناخت میں مدد مل سکے۔ ان معلومات کی بدولت وہ حکام کو صورت حال کے حوالے سے چوکس کرنے کے قابل ہو جاتے۔

امریکی ویڈیو سٹریمنگ سروس پیکوک کی نئی دستاویزی فلم ’پرفیکٹ ورلڈ: اے ڈیڈلی گیم‘ میں منہاز کا کھوج لگانے والی آن لائن گیمرز کی برادری کے براہ راست انٹرویوز میں ان کی کوششوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ 

آن لائن اکاؤنٹ پر منہاز سے رابطہ کرنے والے لوگوں کے مطابق قتل کی وارداتوں سے پہلے اس اکاؤنٹ سے ناشائستہ تبصرے پوسٹ کیے جاتے رہے تھے۔ ان تبصروں میں وہ کھلی نسل پرستی پر مبنی پیغامات شامل ہیں جن میں مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا تھا۔ ’پرفیکٹ ورلڈ: اے ڈیڈلی گیم‘ کے شرکا میں ایک، نکول، کے بقول: ’منہاز نے جو بھی بات کی انتہائی نسل پرستانہ تھی۔‘

قبل ازیں منہاز کے اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن وہ پلیٹ فارم پر واپس آ گئے۔ 27 جولائی 2019 کو پیغامات نے پریشان کن موڑ لے لیا جب اکاؤنٹ سے گروپ چیٹ میں بتایا گیا: ’میں والدین کو قتل کرنے اور جیل جانے والا ہوں‘۔ اس کے بعد اکاؤنٹ سے ایک خاتون کی لاش کی تصاویر شیئر کی گئیں جن کے ساتھ پیٖغام تھا کہ ’یہ میری ماں ہے۔‘

ڈسکورڈ سرور استعمال کرنے والے یقین کے ساتھ کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔ کیا اکاؤنٹ سے سچ بتایا جا رہا ہے یا یہ کوئی ظالمانہ مذاق ہے؟ پھر اکاؤنٹ سے ایسی ہی ایک اور تصویر بھیجی گئی۔ دستاویزی فلم میں نکول یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ تصویر ’مبینہ طور پر ان (منہاز) کی دادی کی تھی۔‘

گیم سرور کے جان نامی صارف کو تقریباً یقین تھا کہ یہ پیغامات سچے ہیں۔ انہوں نے ان تصاویر کو رابطوں کے دوسرے گروپ کو یہ دیکھنے کی کوشش میں بھیج دیا کہ آیا وہ پہلے سے آن لائن دستیاب تصویروں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہیں۔ اس طرح یہ پتہ چل جاتا کہ منہاز کے پیغامات جھوٹے ہیں یا نہیں۔ جان کے رابطوں میں نکول بھی تھیں جو  فوجداری انصاف کی طالبہ تھیں اور فرانزک کا کچھ علم رکھتی تھیں۔ انہیں تھوڑا سا شبہ تھا کہ تصاویر میں دکھائی دینے والے زخم حقیقی ہیں نقلی نہیں۔ وہ دستاویزی فلم میں کہتی ہیں: ’لیکن یہ ممکن ہے کہ یہ تصاویر انٹرنیٹ سے کسی ڈراؤنی ویب سائٹ سے لی گئی ہوں۔‘

نکول نے ریورس گوگل امیج سرچ پر کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا۔ انہوں نے چند مزید ڈیٹابیسز کی جانچ کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہ کہتی ہیں: ’کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا جس سے یہ ظاہر ہوا ہو کہ انہوں نے یہ تصاویر محض کسی  ویب سائٹ سے لیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ تصاویر خود کھینچی ہوں۔ تب معاملہ کچھ ایسا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے۔ ہمارا دوست بہت سے لوگوں کا قاتل ہے۔‘

وہ لوگ جن کی آن لائن زندگی اس شخص سے رابطے میں گزری تھی ہے جنہیں وہ صرف منہاز کے طور پر جانتے تھے، کا تعلق دنیا کے مختلف حصوں سے تھا۔

دستاویزی فلم میں امریکہ، مصر، رومانیہ، بیلجیم، اسرائیل اور کوسٹا ریکا میں مقیم شرکا شامل ہیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ منہاز اکاؤنٹ کے پیچھے موجود شخص کہاں رہتے ہیں یا ان کا پورا نام کیا ہے۔

ان شرکا میں سے ایک نے ٹیکساس میں پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جہاں وہ خود مقیم تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ یہ لوگ ڈسکورڈ سرور استعمال کرنے پریشان اور خوفزدہ تھے۔ انہیں پریشانی تھی کہ مزید متاثرہ افراد ہو سکتے ہیں۔ انہیں مداخلت کرنے کی سخت ضرورت محسوس ہوئی۔

انہوں نے کوسٹا ریکا سے تعلق رکھنے والے جونیئر نامی ایک اور صارف سے مشورہ کیا جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ شاید وہ منہاز کو ان سے بہتر جانتے ہیں۔

جونیئر نے منہاز تک پہنچنے کی کوشش کی، انہیں میسجز کیے جب تک کہ جواب نہیں آیا۔ دستاویزی فلم کے مطابق جواب آیا: ’یہ آپ کو پریشان کر سکتا ہے لیکن میں نے ایسا کیا۔‘

اکاؤنٹ کے پیچھے موجود شخص نے اگلی بار ان کے والد اور ان کی بہن کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔

یہ گروپ منہاز کو شناخت کرنے یا ان کا اتہ پتہ معلوم کرنے کے قریب تر نہیں تھا۔ ان لوگوں نے منہاز کے پیغامات کی تاریخ کو دیکھا اور طے کیا کہ وہ ممکنہ طور پر شمالی امریکہ کے مشرقی معیاری ٹائم زون میں مقیم ہیں۔

ان کے آئی پی ایڈریس کی جانچ پڑتال سے ٹورونٹو کے ایک مقام پتہ چلا لیکن آئی پی ایڈریس صرف اس بات کا عمومی اندازہ دیتے ہیں کہ کوئی کہاں ہو سکتا ہے۔ نیکول کے مطابق: ’اس طرح یہ تعداد 7.3 ارب لوگوں سے 60 لاکھ افراد تک کم ہو جاتی ہے۔ یہ بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔‘

بعد ازاں منہاز نے دوبارہ گیم میں لاگ ان کیا۔ اس طرح سرور ایڈمنسٹریٹرز میں ایک، آسٹن کو زیادہ درست آئی پی ایڈریس اور اس وجہ سے زیادہ درست مقام کا پتہ لگانے کا موقع مل گیا۔ اس وقت وہ انہیں ٹورونٹو کی ایک مخصوص سڑک پر ایک مخصوص عمارت تک محدود کرنے میں کامیاب رہے۔

گروپ نے مالک مکان کا فون نمبر تلاش کیا اس امید پر کہ وہ منہاز کے اپارٹمنٹ کا نمبر شناخت کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب فون کی گھنٹی بجی تو انہیں احساس ہوا کہ فون نمبر اور اس کے ساتھ منسلک پتہ منہاز کو انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے کے تھے۔ جو امید افزا سراغ کی طرح دکھائی دیا تھا وہ گلی کا بند سرا نکلا اور منہاز کو ذاتی طور پر تلاش کرنے عمل میں قریب تر نہیں تھے۔

منہاز نے ڈسکورڈ سرور کو مزید پریشان کن پیغامات اور ایک اور تصویر بھیجی۔ گروپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے اپنی بہن کو قتل کر دیا ہے۔ اکاؤنٹ کے پیچھے موجود شخص نے ایک گھنٹے میں گھر آنے والے اپنے والد کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنے کی دھمکی دی۔

گروپ نے کوشش جاری رکھی۔

پیکوک کی دستاویزی فلم کے مطابق گروپ نے سینٹ پال، منیسوٹا میں واقع ڈسکورڈ سرور کے ایک رکن سے رابطہ کیا جنہوں نے مقامی پولیس سے رابطہ کیا۔ کسی نے ان کا ٹورونٹو پولیس سے رابطہ کروایا جس کے بعد ٹورونٹو پولیس نے منہاز سے متعلق کسی بھی شناختی معلومات کے لیے ڈسکورڈ کو ہنگامی درخواست دے دے۔

ڈسکورڈ نے انہیں منہاز کے آئی پی ایڈریس تک پہنچنے کے قابل بنایا۔ یہ آئی پی ایڈریس انہیں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی روجرز تک لے گیا۔ پولیس افسران نے روجرز سے رابطہ کیا جس نے آخرکار منہاز کے اکاؤنٹ کے ساتھ درج ان کا عملی پتہ فراہم کیا۔

دستاویزی فلم ’پرفیکٹ ورلڈ: اے ڈیڈلی گیم‘ میں بیان کی گئی داستان اس سے مختلف ہے جو ڈسکورڈ کے صارفین نے جریدے ’وائس‘ کو بتائی۔ ’وائس‘ کی رپورٹ میں اکاؤنٹ کے پیچھے موجود شخص نے پے پال کے ذریعے رقم مانگی جس نے گروپ کو اسی اکاؤنٹ سے کی گئی پچھلی ادائیگیاں اور گھر کا پتہ ڈھونڈنے کا موقع مل گیا۔ اس معاملے کا ذکر ’ٹورونٹو لائف‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے مضمون میں موجود ہے  جس میں ’وائس‘ کی رپورٹ کی طرح کہا گیا کہ یہ بیانکا نامی ایک گیمر تھی جس نے پے پال اکاؤنٹ کے ذریعے منہاز کے گھر کا پتہ تلاش کیا اور اسے فون پر پولیس کو دے دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو بات متنازع نہیں ہے وہ یہ ہے کہ 28 جولائی 2019 کو پولیس افسروں کو مارکم میں کاسل مور ایونیو پر ایک پتے پر بلایا گیا۔ اونٹاریو میں واقع شہر مارکم ٹورونٹو سے سے تقریباً 18 میل دور ہے۔ ’گلوبل نیوز‘ کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق گھر کے اندر پولیس کو فیروزہ بیگم (زمان کی دادی)، منیرالزمان (ان کے والد)، ملیسا زمان (ان کی بہن) اور ممتاز بیگم (ان کی والدہ) کی لاشیں ملیں۔

 پیکوک کی دستاویزی فلم، ’وائس‘ اور ’ٹورونٹو لائف‘ کی تمام کہانیوں کے مطابق منہاز کے اکاؤنٹ سے ڈسکورڈ سرور کو پیغام بھیجا جس میں کہا گیا: ’پولیس پہنچ گئی ہے۔ گڈ بائے۔‘

منہاز زمان کے والدین منیرالزمان اور ممتاز بیگم 1980 کی دہائی کے آخر میں بنگلہ دیش سے کینیڈا منتقل ہو گئے تھے۔ ’ٹورونٹو لائف‘ نے فروری 2020 میں رپورٹ کیا کہ منہاز جو 1996 میں پیدا ہوئے ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ اس کے بعد ان کی بہن ملیسا زمان تھیں جو 1998 میں پیدا ہوئیں۔

ہائی سکول میں منہاز کے ایک سابق دوست نے ’ٹورونٹو لائف‘ سے بات چیت میں انہیں ’مارکم کا محض ایک اوسط بچہ‘ قرار دیا۔ ایک ہمسائے کا کہنا تھا کہ منہاز ’خاندان کے لاڈلے بچنے‘ کی طرح دکھائی دیتے تھے۔

’سی ٹی وی نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق قتل کی وارداتوں سے پہلے منہاز کے خاندان کا ماننا تھا کہ وہ ٹورونٹو کی یارک یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس کے بجائے منہاز نے سینیکا کالج میں الیکٹرانکس انجینئرنگ پروگرام میں دو سمسٹرز کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی۔

’ٹورنٹو لائف‘ کے مطابق قتل کی رات منہاز نے ڈسکورڈ پر لکھا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ان کی مبینہ گریجویشن کی تاریخ قریب آ رہی تھی۔ انہوں نے لکھا: ’یہ تین سال سے میرا منصوبہ ہے۔ میں نے والدین کو بتایا تھا کہ میری یونیورسٹی کی گریجویشن 28 جولائی کو ہے۔ میں اس میں مزید تاخیر نہیں کر سکتا تھا۔‘

انہوں نے مبینہ طور پر مزید کہا: ’میں نے یہ اس لیے کیا کیوں کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے والدین میرے جیسا بیٹا پیدا کرنے پر شرم محسوس کریں‘ اور ’میں ایک قابل نفرت بزدل اور انسانیت کے درجے سے گرا ہوا انسان ہوں۔ چوں کہ میں ایک ملحد ہوں میرا ماننا ہے کہ کوئی ( بعد کی زندگی نہیں ہے۔ اس لیے میں مرنے سے ڈرتا تھا۔ اور میں چاہتا تھا کہ وہ مر جائیں تا کہ وہ یہ جاننے کی تکلیف نہ اٹھائیں کہ میں کتنا قابل نفرت اور انسانیت سے گرا ہوا ہوں۔ یہ سب بہت خود غرضی ہے۔ میں محض قابل نفرت ہوں۔‘

’پرفیکٹ ورلڈ: اے ڈیڈلی گیم‘ میں تفتیشی ٹیپس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  منہاز نے قتل کی وارداتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک سراغ رساں سے کہا: ’میرے خاندان کے چار افراد میری وجہ سے مر گئے۔‘ اور ’بس میں نے انہیں مار دیا‘ لیکن انہوں نے قتل کے مقصد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

ڈسکورڈ سرور کے ارکان کے مطابق منہاز نے کہا کہ انہوں نے اپنے دن شاپنگ مال اور کمیونٹی جِم جانے میں گزارے جب کہ ان کے خاندان کا ماننا تھا کہ وہ کلاسز لے رہے ہیں۔

زمان نے ستمبر 2020 میں قتل عمد کی تین وارداتوں اور بلا ارادہ قتل کی ایک واردات کا اعتراف کیا۔ انہیں اسی سال نومبر میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جس میں 40 سال تک پیرول پر رہائی نہیں تھی۔

اکتوبر 2020 میں سزا سنانے کے لیے مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے عدالت کو بتایا: ’میں کسی بھی اس شخص سے معافی مانگنا چاہوں گا جن پر میں نے اپنے اعمال کے ذریعے منفی اثر ڈالا۔ خاص طور پر ان لوگوں سے جو میرے خاندان کو جانتے ہیں۔ دوست اور پیارے جنہیں میں جانتا ہوں وہ میرے ہاتھوں ایسا کچھ ہوتا کبھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میں معافی چاہتا ہوں۔‘

’سی ٹی وی‘ کے مطابق ملیسا زمان کی دوست افنان علی بیکس نے عدالت کو بتایا: ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے اپنی بہترین سہیلی کے لیے انہیں پہنچنے والے نقصان سے متعلق بیان ریکارڈ کروانا پڑے گا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں مجھ سے اس طرح چھین لیا جائے گا۔ میں نے سوچا تھا کہ مستقبل میں کسی موقعے پر ان کی شادی والے دن ان کے لیے تقریر لکھوں گی لیکن میرا خیال ہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے منہاز کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ آزاد گھومنے والے شخص کے طور پر وہ کیا کر سکتے ہیں۔ جب سے انہوں نے قتل کیے ہیں میں عام لوگوں کے درمیان انہیں دیکھنے کے خوف سے یا ان جیسے کسی اور شخص کو دیکھ کر کئی بار ڈری ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ درد اور بے چینی کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا