خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں ایک چچا نے اپنے اکلوتے یتیم بھتیجے اور بھابھی کو قتل کردیا اور پھر فرار ہوگیا۔
اس واقعے نے علاقہ مکینوں کو سوگ وار کردیا ہے جبکہ قتل کی وجہ واضح نہیں ہو سکی ہے۔
جنوبی وزیرستان کے ضلعی پولیس سربراہ شوکت علی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وانا سے کوئی پندرہ کلومیٹر دور تحصیل برمل اعظم ورسک کے علاقے ورائی نور میں عبدالستار نامی شخص نے اپنے 17 سالہ بھتیجے عبدالرحمن اور اس کی والدہ کو اس وقت فائرنگ کرکے ہلاک کردیا جب وہ دونوں اپنے گھر میں موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ قریبی رشتہ دار دونوں کو زخمی حالت میں ہسپتال لے گئے مگر وہ شدید زخموں کے باعث ہلاک ہوگئے۔
شوکت علی کا کہنا تھا کہ دونوں لاشوں کو بغیر پوسٹ مارٹم کے دفن کر دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی نے ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، اس لیے کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
پولیس سربراہ کے مطابق ملزم ذہنی طور پر پریشان یا ذہنی مریض لگ رہا ہے جبکہ اس کے خاندان کے مطابق وہ چرس کا نشہ بھی کرتا تھا۔
تاہم اعظم ورسک کے رہائشی اور متاثرہ خاندان کے پڑوسی نور حسن نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ عبدالستار ایک اچھے خاندان سے ہیں اور وہ ’چرس ضرور پیتے ہیں مگر اتنی نہیں کہ ایک یتیم بچے اور اس کی ماں کو قتل کردیں۔‘
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں اس طرح کے واقعات کے پیچھے اکثر وجہ جائیداد کا لالچ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’حکومت کو چاہیے کہ اس کی تحقیقات کی جائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نور حسن کا کہنا تھا کہ انضمام سے پہلے قبائلی اضلاع میں اکثر طاقتور لوگ جائیداد کے لالچ میں چھوٹے بچوں کا قتل کیا کرتے تھے مگر ان کے خلاف حکومت کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لاتی تھی کیونکہ ایف سی آر میں اس طرح واقعات کے خلاف کوئی شق موجود نہیں تھی۔
’اب تو پولیس اور عدالت دونوں موجود ہیں مگر ایف سی آر کی طرح اب بھی سرکار کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔‘
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وکیل ذولفقار علی نے بتایا کہ پولیس متاثرہ شخص کی رپورٹ کے بغیر بھی کارروائی کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو قسم کے مقدمات ہوتے ہیں ایک دیوانی اور دوسرا فوجداری، دیوانی (سول کیس) میں اگر کوئی تھانے میں رپورٹ نہ کرے تو پولیس اپنی طرف سے کارروائی نہیں کرسکتی جبکہ فوجداری میں پولیس اور عدالت دونوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ملزم کے خلاف ایف آئی ار درج کرکے کارروائی عمل میں لائے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی اس طرح کا واقعہ سامنے آجائے کہ مقتول کے کوئی ورثہ نہ ہوں تو سرکار اپنی طرف سے ایف آئی آر درج کرسکتی ہے اور سرکاری وکیل کو مقرر کرکے مقدمے کو لڑا جاتا ہے۔
ذولفقار علی کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں اس طرح کے واقعات اکثر اوقات آگے نہیں بڑھتے اور کیس کے درمیان میں خارج ہوجاتی ہیں۔
ذولفقار علی کے مطابق: ’عدالتوں میں گواہی کے بغیر دفعہ 302 کے کیسز میں بہت کم سزا ملتی ہے۔ اب اگر کسی کے وراثت میں کوئی بھی نہیں رہ گیا تو کیس میں پیشی کے لیے کوئی نہیں آئے گا اور نہ ہی واقعے کا کوئی گواہ ہوگا اور آخر کار ملزم ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے۔‘
عبدالستار کے قریبی رشتہ دار حبیب اللہ نے بتایا کہ ان کے خاندان میں چرس کی لت کسی کو نہیں اور نہ ہی ذہنی بیماری کی شکایت ہے۔ ان کا کہنا تھا خاندان کھیتی باڑی کا کام کرتا ہے۔
قتل کیے جانے والے عبدالرحمن اپنی والدہ کے اکلوتے بیٹے تھے اور حال ہی میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے والد عبدالقادر بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد وانا میں لوگ سوگ وار ہیں اور حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔