صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں اتوار کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے بلایا گیا جرگہ ختم ہو گیا۔
پیر کو پیش ہونے والے جرگے کے 25 نکاتی اعلامیے میں صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتونوں کے آئینی اور بنیادی حقوق کو یقینی بنانے اور ان کے وسائل پر انہیں اختیار دینے کے مطالبات شامل کیے گئے ہیں۔
11 مارچ کو بنوں میراخیل سپورٹس گراؤنڈ میں منعقد کیے گئے سہ روزہ جرگے میں تمام مکتبہ فکر اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے پشتونوں نے شرکت کی، جس میں مرد وخواتین دونوں شامل تھے۔
جرگے میں شریک ہونے والے عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری ثقافت خادم حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایک کامیاب اور منظم جرگہ منعقد کروانے پر محمود خان اچکزی کو مبارک باد دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ پشتون قوم واپس قبائلیت میں نہیں جاسکتے کہ موجودہ دور میں ایسا کرنا ان کے لیے باعث نقصان ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے پاس ایک پلیٹ فارم ہو جہاں سے ان کی سیاسی، سماجی اور عمومی نمائندگی ہو۔
بنوں جرگے کے انعقاد کا فیصلہ 21 فروری، 2022 کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے کیا تھا۔
ان کے دعوت نامے میں لکھا گیا تھا کہ پچھلے 40 سالوں سے پختون سرزمین پر جنگ مسلط کی گئی، جس میں ہزاروں پختون مارے جاچکے، لاکھوں بے گھر ہوئے، ان کے کاروبار اور طرز زندگی بربادی کا شکار ہے۔
دعوت نامے میں مزید لکھا گیا کہ پختونوں کے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے اور ہزاروں افراد لاپتہ ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود پختونوں کے خلاف دہشت گردی اور انتہا پسندی کا پروپیگنڈہ جاری ہے۔
دعوت نامے کے مطابق پختون علاقوں میں بیش بہا وسائل کے باوجود یہی علاقے تعلیم اور صحت کے بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔
‘سیاسی لیڈرز کی ٹارگٹ کلنگ اور ان کے صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں عدم تحفظ ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔’
جرگے میں کیا مطالبات ہوئے؟
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے اس قومی جرگے سے قبل 10 مارچ، 2020 کو عوامی نیشنل پارٹی نے پشاور کے باچا خان مرکز میں پختون قومی جرگہ بلایا تھا، جس میں پاکستان کے پختونوں کو درپیش سیاسی اقتصادی، تعلیمی اور دیگر مشکلات پر بحث ہوئی اور ان کے حل کے لیے 21 نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔
حالیہ جرگہ بھی ایسا ایک اعلامیہ جاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو پچھلے دو ایسے جرگوں کے اعلامیوں کی توثیق کرتا ہے اور نئے حالات کی روشنی میں مندرجہ ذیل نکات پر متفق نظر آتا ہے۔
جرگے میں ریاست سے مطالبہ کیا گیا کہ خیبر پختونخوا پر پچھلے 20 سال سے مسلط کی گئی جنگ کے بارے میں ‘ٹروتھ اور ری کنسیلیشین کمیشن’ قائم کیا جائے۔
علاوہ ازیں، پشتونوں کے علاقوں میں جبری لاپتہ افراد کی تفصیلات سامنے لائی جائیں اور لاپتہ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
یہ بھی مطالبہ ہوا کہ پشتونوں کا ماورائے عدالت قتل عام بند کیا جائے اور تمام پشتون علاقوں میں قائم کی گئی چیک پوسٹوں کو ختم کیا جائے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے داخلی امن اور خارجہ پالیسی میں دہشت گرد تنظیموں اور ان کی امداد یا سرپرستی کو بند کیا جائے۔
خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے پرانے قبائلی ایجنسیوں کو بارودی سرنگوں سے پاک کیا جائے۔
متوقع اعلامیے میں پشتونوں کو درپیش سیاسی مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی اور کہا گیا کہ پختون علاقوں میں سیاسی عمل پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بندشیں ختم کی جائیں، اور آئین پاکستان میں تمام پاکستانی شہریوں کو دی جانے والی انسانی وسیاسی حقوق سے پشتونوں کو محروم نہ رکھا جائے۔
پختون سیاسی کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کا سلسلہ بند کروانے سمیت وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر، حنیف پختون، قاری طاہر مسعود، اویس ابدال اور دیگر پختون ایکٹویسٹس کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اعلامیے کے ڈرافٹ میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں حقیقی وفاقی پارلیمانی اور جمہوری نظام بحال کیا جائے اور یہاں آئین اور پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔
مزید برآں، پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد، خود مختار اور غیر جانب داری کے اصولوں پر مبنی ہو۔
اعلامیے میں چند نکات افغانستان کے حوالے سے بھی شامل کرنے کی توقع ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے ابتدائی ڈرافٹ میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان کی ملی وحدت، حاکمیت اور دفاع افغان ملت کا قومی و دینی فریضہ ہے، لہذا بنوں کا جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ افغانستان میں عام انتخابات کے ذریعے تمام اقوام کی منتخب حکومت قائم کیا جائے اور افغانستان کی اساسی آئین کے تحت تمام قومی اداروں کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔
اعلامیے میں خیبر پختونخوا میں ‘ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن’ کے نافذ قانون کو کالا قانون قرار دیا گیا اور صوبے سے اس کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔
پختون علاقوں میں قدرتی وسائل اور اس پر پختونوں کے حق کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاق سے مطالبہ کیا گیا کہ پختونوں کو اپنے علاقوں کے وسائل جیسے پانی وبجلی پر پہلا حق دیا جائے اور ان وسائل سے آنے والے آمدن میں صوبے کو برابر کا منافع دیا جائے۔
خیبر پختونخوا جو تمباکو کی وافر پیداوار کا صوبہ ہے، اس کو زرعی فصل قرار دینے کا مطالبہ بھی ہوا اور اس کے ساتھ انڈس واٹر ٹریٹی پر بھی تنقید ہوئی۔
ڈرافٹ کے مطابق معاہدے میں پختونوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی لہذا اس پر نظر ثانی کی جائے۔
این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے متوقع اعلامیے میں صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر بھی نظرثانی کا مطالبہ ہوا اور کہا گیا کہ آبادی کے تناسب سے 72 فیصد کو 50 فیصد میں تبدیل کیا جائے۔
اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبے کے لیے مختص مالی وسائل کو صوبوں تک منتقل کیا جائے۔ اور خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد شامل ہونے والے قبائلی علاقوں کے لیے تین فیصد حصہ فوری طور پر منظور کیا جائے اور سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات پر جلد ازجلد عمل کیاجائے۔
‘یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا پشتون قومی جرگہ تھا’
اورکزئی میں عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر اور اے این پی کے صوبائی کونسل کے رکن ملک مثل خان اورکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ اپنی نوعیت کا پہلا اعلی سطحی جرگہ تھا جو اس سے قبل پہلے کبھی پاکستان میں نہیں ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت منظم جرگہ تھا جس کی خاصیت یہ تھی کہ ہر شخص کو منطق اور دلیل کے ساتھ رائے دینے کی آزادی حاصل تھی۔
‘فاٹا کے انضمام کے حق اور مخالفت کرنے والے تھے، یا اسٹیبلشمنٹ کے حق اور مخالفت میں بولنے والے، یہ ایک آزاد فورم تھا اور ہر کسی کی رائے کو احترام سے سنا گیا۔’
مثل اورکزئی نے بتایا کہ جرگے کی مختلف کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، جس میں وکلا، مذہبی حلقے اور سیاسی حلقے کی الگ الگ کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، جو تین دن لگاتار تجاویز اکھٹی کرتے ہوئے اس کو ایک جامع شکل دینے میں مصروف تھے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ جرگہ بنوں میں اس مقام پر ہوا جہاں پر 1947 میں سپین قمر نامی جرگہ ہوا تھا۔
اس میں باچا خان، عبدالصمد خان اچکزئی، فقیر ایپی اور دیگر قائدین شامل تھے اور جس پر حملہ بھی ہوا تھا۔
جرگے کے اعلامیے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس میں پختونوں کے بنیادی اور آئینی حقوق سے لے کر پشتون خواتین کے حقوق تک تمام نکات پر بات کی گئی ہے ، جس میں سرفہرست مطالبہ پشتون علاقوں میں امن کا قیام ہے۔
جرگے میں خواتین کی شمولیت
جرگے میں شامل خواتین ارکان میں سے ایک بلوچستان کی مشہور سماجی کارکن وڑانگہ لونی ہیں جو کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی بانی ارکان میں سے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جرگے میں فیصلہ ہوا کہ آئندہ اس طرح کے مزید جرگے ہوں گے، جس میں پشتون قوم کے مسائل حل کرنے اور ان کی راہ ہموار کرنے کے لیے متفقہ طور پر کام کیا جائے گا۔
وڑانگہ کے مطابق: ’یہ پشتون قوم کی نمائندگی کرنے والا ایک وسیع جرگہ تھا۔ اس کا مقصد متحد ہوکر اپنے مسائل کو حل کرنا ہے۔ ہم پر جنگ اور جبر کا جو دور گزرا، جو نقصان ہمیں ملا، اب اس پر ایسے ہی گرینڈ جرگے ہوں گے۔’
جرگے میں خواتین کو بھی اپنی بات کرنے اور فیصلہ سازی کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا۔
جرگے کے دوران سماجی کارکن لائبہ یوسفزئی نے پشتونوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پنجاب کے جبر سے خود کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے گھر میں خواتین کو مردوں کے جبر سے آزاد کریں اور اس حوالے سے بھی جرگہ کریں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اراکین جرگہ کو بتایا کہ پشتون خواتین کی اکثریت تعلیم اور ہنر سے بے بہرہ ہیں۔
ایسے حالات میں ایک کثیر تعداد میں خواتین نے بم دھماکوں اور جنگوں میں اپنے مردوں کو کھودیا ہے، اور وہ بیوگی اور لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
‘میں نے جرگے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا، جس کو کافی سراہا گیا کہ پشتون معاشرے میں جن خواتین کا کمانے والا نہیں ہے ان کی زندگی آسان بنا دی جائے، ان پر تنقید کرنے کی بجائے ان کے سروں پر دوپٹہ رکھا جائے۔ اور اگر ریاست ان کا حال نہیں پوچھتا تو یہ پشتون قائدین کا اولین فرض بنتا ہے کہ ان کی مدد کریں۔’
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لائبہ یوسفزئی نے کہا کہ بعض لوگ خواتین کی جرگے میں شمولیت پر تنقید کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جولوگ ایسا کہتے ہیں وہ اپنی تاریخ سے لاعلم ہیں۔
‘پشتون خواتین نے زمانہ قدیم میں جرگوں ، جنگوں اور فیصلوں میں حصہ لیا۔ عظیم پشتون قائد احمد شاہ کی والدہ زرغونہ اور میوند کی ملالئی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ ’دراصل بدقسمتی سے پشتون کلچر پر عرب اور پنجاب کی ثقافت حاوی ہوگئی ہے اور ہم اپنی روایات بھول گئے ہیں۔’
لائبہ نے کہا کہ انہوں نے اعلامیے میں لکھی گئی تجازیز میں اس بات پر زور دیا کہ پشتون خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں شرکت کرنے کی آزادی دی جائے۔
جرگے میں افغانستان کی بعض خواتین نے بھی شرکت کرتے ہوئے اپنے مسائل پر بات کی اور پاکستان کے پشتون رہنماؤں سے مدد کی اپیل کی۔
فوزیہ خانم نے جرگے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ جوظلم اور جبر روا رکھا جارہا ہے، اس کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، تاہم پاکستان میں مزید مشکلات ان کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سے کرایوں کی مد میں بھاری رقم وصول کی جاتی ہے اور پانچ ہزار کا ایک کمرہ 75 ہزار روپے میں دیا جاتا ہے۔
’ایسے میں میرا گلہ پشتون قائدین سے ہے، جو اس معاملے پر خاموش ہیں۔‘