بنگلہ دیش نے منگل کو کہا کہ فوجداری مقدمات میں ریپ کا نشانہ بننے والوں کے ’غیر اخلاقی کردار‘ کی تحقیقات سے متعلق سوالات پر پابندی لگا دی جائے گی۔
بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ریپ کیسز میں صدمے سے دوچار زندہ بچ جانے والے افراد سے توہین آمیز سوالات پوچھے جانے کے خلاف طویل عرصے سے مہم چلا رہی ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانوی سامراجی دور کا 19 صدی کا قانون شہادت عام طور پر عدالت میں ہونے والی جرح اور پولیس کی تحقیقات کے دوران متاثرہ افراد کی گواہی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم خواتین ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ قانون شہادت کو تبدیل کیا جائے۔
گذشتہ سال انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد نے قانون کی منسوخی کے لیے بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
بنگلہ دیش کے وزیر انصاف انیس الحق نے اے ایف پی کو بتایا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی کابینہ نے قانون شہادت سے کردار کی گواہی کے متعلق شقیں نکالنے کا عزم کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت قانون کے تحت ریپ کے ملزموں کو اجازت ہے کہ وہ ’متاثرہ فرد کے غیر اخلاقی کردار کے بارے میں سوالات کریں‘ لیکن اس پر پابندی لگا دی جائے گی۔
توقع ہے اس ضمن میں پارلیمنٹ جون تک فیصلہ کرے گی۔ بنگلہ دیشی وزیر قانون کے بقول: ’یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی جانب ایک اور قدم ہو گا۔‘
عین و سالش کیندرا (مرکز برائے قانون و ثالثی) سے منسلک انسانی حقوق کی ممتاز کارکن نیناگوسوامی نے حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے اسے قابل ذکر کامیابی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کردار کے بارے میں شہادت کئی دہائیوں سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ریپ کے متعدد متاثرین نے سماجی سطح پر بے عزتی کے خوف کی وجہ سے اپنے اوپر حملہ کرنے والوں پر الزامات عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گواسوامی کا کہنا تھا کہ اب یہ سلسلہ رک جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال بنگلہ دیش لیگل ایڈ اینڈ سروسز ٹرسٹ (بلاسٹ) نے کہا تھا کہ کردارسے متعلق گواہی کو متاثرین کی گواہی پر شک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جس سے جرم میں ملوث ہونے کے فیصلے مشکل ہو گئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ریپ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ تنظیمیں خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق قانون میں خامیوں اور استثنیٰ کے کلچر کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔
اس معاملے پر مسلسل ہونے والے مظاہروں میں عوامی غصہ اس وقت انتہا کو پہنچ گیا جب 2020 میں حسینہ واجد کی پارٹی کے طلبہ ونگ کے ارکان کو گرفتار کر ان پر گینگ ریپ کا الزام لگایا گیا۔