وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تو پیش کر دی گئی لیکن کیا اس تحریک کا سیاسی منظر نامے پر کوئی اثر پڑے گا؟
ایسی تحاریک تو ماضی میں بھی پیش کی جاتی رہی ہیں۔ 1989 میں اس وقت کی وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف لائی گئی تحریکیں ناکام ہوئیں لیکن یہ تحریک اور اس وقت کی حکومت اور حالات ماضی کی نسبت مختلف ہیں۔
18 جولائی، 2018 کے انتخابات میں حزب اختلاف کا اتحاد واضح رہا۔ چاہے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا پلیٹ فارم ہو یا سیاسی جماعت کے طور پر ان کا موقف، اپوزیشن زور دیتی رہی کہ الیکشن غیر جانبدار یا شفاف نہیں تھے۔ اپوزیشن کی جانب سے یہ بیانیہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا۔
یوں ملکی تاریخ کے یہ ایسے پہلے چار سال رہے جن میں اپوزیشن نے مسلسل حکومت کو ’سلیکٹڈ‘ قرار دیتے ہوئے پارلیمان کے اندر اور باہر تحریک اور دھرنوں کی صورت جنگ جاری رکھتے ہوئے فوری صاف شفاف انتخابات کا مطالبہ جاری رکھا۔
پاکستان تحریک انصاف وہ پہلی حکومت ہوگی جو اپوزیشن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈی چوک پر پاور شو کی صورت میں سیاست پارلیمان سے باہر لے کر آئے گی۔
حکومت کے اس فیصلے کو اتحادی جماعت ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کام جلسے کرنا نہیں ہوتا، یہ کام اپوزیشن کا ہے۔
تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد عمران خان خود بھی وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر پارلیمنٹ لاجز تک ارکان کو منانے پہنچ گئے۔
دوسری طرف ماضی کے سخت ترین مخالف اپوزیشن اراکین بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے مسکراتے عشائیے میں ساتھ بیٹھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
جس دن سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی، اس دن سے نمبر گیم تو اپنی جگہ لیکن پارلیمان کے اندر اور باہر امپائر کے نیوٹرل ہونے کا ذکر بھی ہر ایک کی زبان پر ہے۔ ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کے دعوے اپنی جگہ لیکن تمام تر صورت حال اب بھی امپائر کے کنٹرول میں ہے۔
اپوزیشن کے دعوے اپنی جگہ لیکن کیا تمام تر صورت حال میں آخری وقت تک یہ انتظار رہے گا امپائر کی انگلی کھیل کا پانسا پلٹ سکتی ہے؟
اپوزیشن تو وزیراعظم، سپیکر، ڈپٹی سپیکر سمیت چیئرمین سینیٹ کے نام تک فائنل کرنے میں مصروف ہے۔
سینیٹ میں بھاری اکثریت ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے الیکشن اور سٹیٹ بینک سمیت اہم قانون سازی پر شکست کھانے والی اپوزیشن قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود آخر اس بار اتنی پراعتماد کیوں ہے؟
قومی اسمبلی پر نظر دوڑائی جائے تو یہ 342 میں سے ایک نشست خالی ہونے کے باعث اس وقت 341 اراکین پر مشتمل ہے۔
حکومت کے پاس اتحادیوں کی حمایت سمیت 179 اراکین ہیں جبکہ اپوزیشن کی نشستوں پر 162 اراکین ہیں۔
اپوزیشن کے تین حکومتی اتحادی جماعتوں جس میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم پاکستان اور بلوچستان عوامی پارٹی سے مذاکرات جاری ہیں۔
ان تینوں جماعتوں کے کل اراکین قومی اسمبلی کی تعداد 17 بنتی ہے۔ تینوں جماعتوں نے اپوزیشن کو سپورٹ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
اگر اپوزیشن یہ 17 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپوزیشن کو 179 جبکہ حکومت کو 162 اراکین کی حمایت حاصل ہوگی۔ یوں وزیر اعظم اعتماد کھو بیٹھیں گے۔
یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ وزیر اعظم کو ایک لسٹ پیش کی گئی ہے جس میں تحریک انصاف کے 25 سے زائد ممکنہ طور پر منحرف اراکین قومی اسمبلی کے نام شامل ہیں۔
سینیئر قانون دان اور سابق چیئرمین سینیٹ نیر بخاری کا کہنا ہے کہ ماضی اور موجودہ تحریک عدم اعتماد میں واضح فرق ہے۔
’ماضی میں بےنظیر بھٹو کے خلاف ایک سازش کے تحت تحریک عدم اعتماد لائی گئی لیکن عمران خان کے خلاف تحریک عوام کی خواہش اور ترجمانی کے مطابق لائی گئی ہے۔
’یہ تحریک کامیاب ہوگی کیوں کہ تحریک انصاف کے اپنے ارکان اب حکومت کے ساتھ نہیں رہے کیوں کہ ان کو تحریک انصاف میں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔
’موجودہ حکومت کی کوئی ایسی پالیسی نہیں رہی جس کے باعث بین الاقوامی سطح پر ملک کو پذیرائی ملی ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب وفاقی وزرا جن میں اسد عمر، فواد چوہدری اور شاہ محمود قریشی شامل ہیں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ اگر اپوزیشن کے نمبر گیم پورے ہیں تو ڈی چوک پر جلسے کی بجائے 172 اراکین پورے کرے۔
تحریک انصاف کے ناراض رہنما سردار یار محمد رند کا کہنا ہے کہ پہلی دفعہ ہے کہ امپائر نیوٹرل ہے اور اب جو بھی فیصلے ہوں گے وہ ملکی مفاد اور عوام کے لیے بہتر ہوں گے۔
پیپلزپارٹی کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے ملکی مفاد کی خاطر ان کے ساتھ چلنے پر اتفاق کر لیا ہے البتہ مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
سینیئر تجزیہ نگاروں کے مطابق مسلم لیگ ق اور بی اے پی نے بھی اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر دیا تو شاید تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
آنے والے چند دن انتہائی اہم ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کو ایوان میں ناکام بناتی ہے یا اب سیاست شاہراہ دستور پر ہوگی؟