یوکرین نے ہفتے کے روز چین سے مطالبہ کیا کہ وہ ’روسی بربریت‘ کی مذمت میں مغرب کا ساتھ دے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکہ نے بھی چین کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت کی تو اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
یوکرینی صدارتی معاون میخائیلو پوڈولیاک نے ٹویٹر پر لکھا، ’چین عالمی سلامتی کے نظام کا اہم حصہ ہو سکتا ہے اگر وہ مہذب ممالک کے اتحاد کی حمایت کرنے اور روسی بربریت کی مذمت کرنے کا صحیح فیصلہ کرتا ہے۔‘
چین یوکرین میں روس کے اقدامات کی بین الاقوامی مخالفت سے دور رہا ہے نیز روسی صدر ولادی میر پوتن کے حملے کی مذمت کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو چینی رہنما ایکس جن پنگ کو ایک کال میں خبردار کیا کہ یوکرین کی جنگ میں روس کی حمایت مہنگی پڑے گی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق بائیڈن نے شی جن پنگ کو مضمرات و نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر چین روس کے وحشیانہ حملوں میں پشت پناہی کرتا ہے تو اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے چینی صدر کے جواب کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔
شی جن پنگ اور پوتن کی ملاقات گزشتہ ماہ بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کے موقع پر ہوئی تھی جس سے کچھ وقت پہلے پوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
روس کا کہنا ہے اس نے جمعے کو پہلی بار یوکرین میں اپنے نئے ہائپر سونک میزائل کا استعمال کرتے ہوئے مغربی یوکرین میں ایک ہتھیاروں کے ذخیرے کو نشانہ بنایا، تاہم یوکرین کی جانب سے تاحال اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس نے پہلے کبھی کسی جنگ میں اپنے آواز کی رفتار سے تیز میزائل استعمال کرنے کا اعتراف نہیں کیا ہے، تاہم ہفتے کو اس کی سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی نے رپورٹ کیا کہ یوکرین پر حملے کے دوران روس نے پہلی بار کنزال ہائپر سونک میزائل استعمال کیے ہیں۔
ایجنسی نے ہفتے کو روسی وزارت دفاع کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’کنزال میزائل سسٹم کے ہائپر سونک ایئربیلسٹک میزائلوں نے ایوانو فرینکیوسک خطے میں دلیاتن گاؤں میں میزائل اور فضائی اسلحے کے زیر زمین گودام کو تباہ کیا۔‘
تاہم جب اے ایف پی نے روسی وزارت دفاع سے رابطہ کیا تو اسے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
روسی صدر ولادی میر پوتن کنزال میزئل کو ایک ’موزوں ہتھیار‘ قرار دے چکے ہیں جو آواز کی رفتار سے 10 گنا تیز پرواز کرتا ہے اور فضائی دفاعی نظام سے بچ سکتا ہے۔
کنزال میزائل ان جدید ہتھیاروں میں سے ایک ہے جس کی نمائش پوتن نے 2018 میں کی تھی۔
مذاکرات نہ ہوئے تو روس کئی نسلوں تک نقصان میں رہے گا: زیلنسکی
روس نے ہفتے کو دعویٰ کیا ہے کہ اس کے فوجی محصور ساحلی شہر ماریوپول کے مرکز میں داخل ہو گئے ہیں جبکہ یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے ماسکو سے مذاکرات کی تازہ اپیل کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک جانب یوکرینی اور روسی فوجیوں کے درمیان تین ہفتوں سے زیادہ عرصے سے ملک بھر میں شدید لڑائی جاری ہے تو دوسری طرف دونوں فریقین کے مابین ہونے والے مذاکرات کے کئی ادوار میں ہی کم ہی پیش رفت ہوئی ہے اور دونوں فریق مذاکرات میں ناکامی کا الزام ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں جبکہ ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان صدارتی سطح پر رابطہ بھی نہیں ہوا۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا: ’یہ ملاقات کرنے، بات کرنے، علاقائی سالمیت اور یوکرین کے لیے انصاف کی تجدید کا وقت ہے۔‘
انہوں نے کریملن کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ایسا نہ ہوا تو روس کا نقصان اتنا ہوگا کہ کئی نسلیں اسے ٹھیک نہیں کر سکیں گی۔‘
ایک امریکی دفاعی عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ روس کی جارحیت بڑی حد تک تعطل کا شکار ہے اور دارالحکومت کیئف کے مشرق میں تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر روسی فوجی دستے موجود ہیں اور انہیں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ روسی افواج محاصرے میں لیے گئے شمال مشرقی شہر خارکیف میں بھی مزید کوئی پیش رفت نہیں کرسکی اور یہ کہ یوکرین کے عام شہری بھی شمالی شہر چرنیہیو کا دفاع کر رہے ہیں۔
ادھر برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا کہ روس اپنی رسد کے راستوں پر یوکرین کے حملوں کی وجہ سے اگلے مورچوں پر موجود فوجوں کو خوراک اور ایندھن جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
دوسری جانب روس کی وزارت دفاع نے جمعے کو دعویٰ کیا کہ اس کی فوج اور علیحدگی پسند اتحادیوں نے ماریوپول کے محاذ پر پیش رفت کی ہے جو کئی دنوں سے روسی گولہ باری کی زد میں ہے اور ہفتے کے روز وہ شہر کے اندر داخل ہو گئے ہیں۔
روسی وزارت نے کہا: ’ماریوپول میں ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ کی اکائیاں، روسی مسلح افواج کے تعاون سے گھیرا تنگ کر رہی ہیں اور شہر کے مرکز میں یوکرینی قوم پرستوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔‘
شہر کے میئر نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی کہ ماریوپول کے مرکز تک دو بدو لڑائی ہو رہی ہے۔
’ایسا اتحاد طویل عرصے سے نہیں دیکھا‘: پوتن کا یوکرین جنگ کا دفاع
روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین میں جاری جنگ کے دوران پہلی بار ماسکو کے ایک سٹیڈیم میں منعقدہ ایک بڑی ریلی میں شرکت کی اور میدان جنگ میں توقع سے زیادہ بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود اپنے فوجیوں کی تعریف کرتے نظر آئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اگرچہ یوکرین پر حملے نے پوری دنیا کی طرح روس کے اندر بھی جنگ مخالف مظاہروں کو ہوا دی ہے، تاہم جمعے کو ماسکو میں ہونے والی قومی پرچموں سے سجی ریلی حب الوطنی کے اظہار کے لیے کریملن کی جانب سے تیار کردہ ایک نمائش دکھائی دی۔
کریملن پر تنقید کرنے والے کئی ٹیلی گرام چینلز کی رپورٹس کے مطابق متعدد خطوں میں ریاستی اداروں کے طلبہ اور ملازمین کو ان کے اعلیٰ افسران کی جانب سے کرائمیا پر ماسکو کے قبضے کی آٹھویں سالگرہ کے موقع پر ریلیوں اور کنسرٹس میں شرکت کا حکم دیا گیا تھا، تاہم ان رپورٹس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
ماسکو کے لوزنیکی سٹیڈیم میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ ’ہم کندھے سے کندھا ملا کر ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے ریلی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا: ’ہم نے طویل عرصے سے اس طرح کے اتحاد کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔‘
ماسکو پولیس نے کہا کہ دو لاکھ سے زیادہ لوگ لوزنیکی سٹیڈیم کے اندر اور اس کے آس پاس موجود تھے۔ تقریب میں حب الوطنی پر مبنی ترانے بھی گونج رہے تھے۔
جنگ کو منصفانہ طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوتن نے روس کے فوجیوں کے بارے میں کہا: ’اپنے دوستوں کے لیے اپنی جان دینے سے بڑھ کر کوئی محبت نہیں ہے۔‘
صدر پوتن اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ یوکرین میں ’نسل کشی‘ کو روکنے کے لیے ان کے اقدامات ضروری تھے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جسے دنیا بھر کے رہنماؤں نے واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔
دوسری جانب روسی فوجیوں نے دارالحکومت کیئف سمیت یوکرین کے کئی شہروں پر گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے۔ یوکرینی حکام نے جمعے کی شب بتایا کہ محاصرہ زدہ جنوبی ساحلی شہر ماریوپول بحیرہ ازوف تک اپنی رسائی کھو چکا ہے اور روسی افواج اب بھی شہر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ واضح نہیں تھا کہ آیا انہوں نے اس اہم بندرگاہ والے شہر پر مکمل قبضہ کر لیا ہے یا نہیں۔
حملے کے تناظر میں کریملن نے اختلاف رائے اور معلومات کے بہاؤ پر سختی سے گرفت مضبوط کر رکھی ہے اور اس دوران ہزاروں مخالف مظاہرین کو گرفتار کیا ہے، فیس بک اور ٹوئٹر جیسی ویب سائٹس پر پابندی لگا دی گئی ہے اور جنگ مخالف میڈیا پر جھوٹی رپورٹنگ کا الزام لگاتے ہوئے سخت سزائیں سنائی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاسی گرفتاریوں پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم OVD-Info کی رپورٹ کے مطابق ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ میں سالگرہ کی تقریبات کی کوریج سے پہلے کم از کم سات آزاد صحافیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
دریں اثنا یوکرین کے ساتھ سفارتی مذاکرات میں روس کے وفد کے سربراہ نے کہا ہے کہ فریقین کے درمیان اختلافات کم ہوئے ہیں جب کہ یوکرین نے کہا ہے کہ اس کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
روسی وفد کی قیادت کرنے والے ولادی میر میڈنسکی نے کہا کہ فریقین یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی کوشش ترک کرنے اور غیر جانبدارانہ حیثیت اختیار کرنے کے معاملے پر معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فریقین اب یوکرین کی غیر فوجی کارروائی سے متعلق معاملات پر ’آدھا راستہ‘ طے کر چکے ہیں۔
تاہم یوکرین کے صدر وولودی میر زیلینسکی کے مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے روسی موقف کی ترید کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ جنگ بندی، فوجیوں کی واپسی اور ٹھوس فارمولوں کے ساتھ مضبوط سکیورٹی کی ضمانتیں جوں کی توں ہیں۔‘