تحریک عدم اعتماد پیش ہوئے دو ہفتے مکمل ہو چکے ہیں اس پورے عرصے میں روزانہ کی بنیاد پر سیاسی بھونچال آتے دیکھے، لیکن کسی موقع پر ایسا نہیں لگا کہ گَل ابھی ودی نہیں۔
اپنی گذشتہ دو تحریروں میں واضح کر چکا ہوں کہ عمران خان نوشتہ دیوار نہیں پڑھ پا رہے اور بہت دیر ہو چکی ہے لیکن جس طرح سے انہوں نے اپوزیشن کے حالیہ ’ڈیڈلی اور انتہائی زیرک سٹریٹیجی‘ پر مبنی وار کی سنجیدگی کو سمجھنے میں دیر کی اس سے ان کی سیاسی بصیرت پر مزید سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔
ان کے پاس پی ٹی آئی کے پرواز کرنے والے اراکین کی لسٹ تو کئی ہفتے پہلے سے موجود تھی لیکن حکومت کے ہاتھ پاؤں اس وقت پھولنا شروع ہوئے جب سندھ ہاؤس میں محفوظ پناہ لینے والے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے میڈیا کے ذریعے سامنے آکر عمران خان پر کھل کر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
اگرچہ میں خود رپورٹ کر چکا ہوں کہ پی ٹی آئی کے وہ ناراض اراکین جو کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کریں گے، ان کی تعداد کم از کم 33 ہوچکی ہے لیکن اس وقت نمبر گیم میں پڑنا غیر ضروری ہے کیوں کہ نمبر گیم میں عمران خان جیت سے کافی دور ہوچکے ہیں۔
یہ بھی نوٹ فرمالیں کہ ابھی اس تعداد میں نہ تو اتحادی شامل ہیں اور نہ ہی پی ٹی آئی کے وہ اراکین جن کے بارے میں ن لیگ نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انہیں بھی ٹکٹ دینا ہے یا نہیں۔
جہاں تک حکومت کی اتحادی جماعتوں کی بات ہے تو آف دی ریکارڈ ڈسکشنز میں حزب اختلاف کی اعلیٰ قیادت یہ اقرار کر رہی ہے کہ ان کے ساتھ تمام معاملات طے پاچکے ہیں اور او آئی سی کے اجلاس کے بعد وہ اپوزیشن کی حمایت کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیں گی۔
ایسے حالات میں ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کے بقول: ’اوپر سے کوئی معجزہ ہی حکومت کو بچا سکتا ہے۔‘ اس سوال پر کہ ’اوپر سے آپ کی مراد کیا ہے؟‘ جواب میں انہوں نے ایک زوردار قہقہہ لگا دیا۔
معاملہ یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے منحرف ہونے کے لیے تیار اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے یا ان لوگوں کو تاحیات نا اہل قرار دینے کا فیصلہ کرے تب بھی اتحادیوں کی عدم حمایت کی صورت میں عمران خان کا بچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
حزب اختلاف کا تیسرا آپشن یہ ہو گا کہ اگر اتحادیوں کو آخری وقت میں کال آجائے (جس کے امکانات بہت ہی کم ہیں) تو پی ٹی آئی کے دو درجن اراکین جن کے ضمیر ’جاگ‘ چکے ہیں، وہ استعفیٰ دے کر خان صاحب کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کر دیں گے۔
اپوزیشن اپنی بھرپور اور منظم حکمت عملی سے عمران خان کو ہر طرف سے گھیر چکی ہے اور اس معرکے کے فیصلہ کن مرحلے کا آغاز او آئی سی کے اجلاس کے فوری بعد ہو جائے گا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کئی معاملات میں حزب اختلاف کی حکمت عملی غیر واضح ہے۔ مثلاً پیپلز پارٹی اور ق لیگ چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں لیکن ن لیگ کا ایک دھڑا جو کہ نوازشریف کے قریب سمجھا جاتا ہے ابھی تک مصر ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں چند ماہ بعد ہی انتخابات کی طرف جایا جائے۔
حزب اختلاف چوہدری پرویز الہیٰ کو اگلا وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر بھی متفق ہوچکی ہے لیکن ن لیگ میں اس معاملے پر اختلاف رائے موجود ہے۔
اسی طرح اپوزیشن میں اگلے وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کے نام پر تو اتفاق رائے موجود ہے لیکن آپس میں مختلف عہدوں پر ابھی اتفاق رائے نہیں ہوا۔
ایسے میں یہ سوال تواتر سے کیا جا رہا ہے کہ وہ رہنما جو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا تک برداشت نہیں کرسکتے تھے، ایک حکومت میں کیا متفق اور اکٹھے رہ پائیں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حزب اختلاف کی قیادت میں یہ تحفظات ہیں کہ اگر موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر بھی لیں تو خراب معیشت اور مہنگائی کی وجہ سے اگلے عام انتخابات میں سارا ملبہ عمران خان ان ہی کے سر پر گرائیں گے۔
عمران خان کو رخصت کرنے کی بھرپور تیاری تو ہوچکی لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔ اس سوال پر اپوزیشن فی الحال خاموش ہے۔ گذشتہ دنوں کچھ بڑوں کی ہونے والی ملاقات کے بعد یہ تاثر بھی ابھارنے کی کوشش کی گئی کہ شاید معاملات طے پاچکے ہیں اور حکومت کے بچاؤ کا انتظام ایک دفعہ پھر کرلیا جائے گا۔ لیکن اس مرتبہ معاملات اتنی سنجیدگی کی حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ شاید اب یہ ناممکن نہیں تو بہت ہی مشکل ہو چکا ہے۔
ویسے تو میں ایسے تجزیوں کے ساتھ یہ انتباہ ضرور لگاتا ہوں کہ ان کی میعاد صبح چھ بجے تک ہے کیوں کہ فیصلہ ساز صبح اٹھ کر ایک ہی فیصلے سے سارے تجزیے دریا برد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اب عمران خان بھی آخرکار یہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں کہ اب بس ہو چکی۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں عوامی جلسوں میں نیوٹرل رہنے کو جانور سے تشبہیہ دینے کی بار بار ضرورت پیش نہ آتی اور نہ ہی منحرف اراکین اسمبلی کو ایسی دھمکیاں دینے کی کہ آپ کے بچوں کے ساتھ سکول میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
ایک طرف متحدہ اپوزیشن ہے جو اب کالوں کے باوجود پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوگی تو دوسری جانب ان کا پالا ایک ایسے وزیراعظم سے پڑا ہے جو عدم اعتماد میں شکست کے باوجود میں نہ مانوں کے مصداق وزیراعظم ہاؤس میں ہی دھرنا دینے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی یہ ہے کہ یہ معاملہ اگر سڑکوں پر تشدد کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور ملک سیاسی عدم استحکام اور انار کی طرف بڑھنے لگا تو پھر کیا ہوگا؟
ایک پہنچے ہوئے سابق فوجی افسر سے سوال کیا تو جواب ملا کہ ’جب حالات اتنے بگڑ جائیں تو پھر کسی نہ کسی کو آگے بڑھ کر معاملات سنھبالنے ہوں گے۔‘
حالات کو اس جانب جانے سے روکنے کی زیادہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے لیکن اگر حکومت کو اندازہ ہو جائے کہ حالات اب اس کے لیے قطعا سازگار نہیں رہے تو پھر وہ وہی کرے گی جو اس کی حکمت عملی کو موافق آئے۔