چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک سیاسی عمل ہے، اور اس میں عدالت كی کوئی دلچسپی نہیں ہے، تاہم ہر كام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
اعلی عدالت نے اسلام آباد كیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) كے پولیس سربراہ سے وفاقی دارالحكومت میں واقع سندھ ہاوس پر جمعے كو تحریک انصاف كے كاركنوں اور اراكین قومی اسمبلی كے حملے سے متعلق رپورٹ بھی طلب كر لی۔
چیف جسٹس آف پاكستان عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم كورٹ كے دو ركنی بینچ نے ہفتے كو سپریم كورٹ بار ایسوسی ایشن كے صدر محمد احسن بھون كی درخواست كی سماعت كی۔
محمد احسن بھون نے وزیر اعظم عمران خان كے خلاف اپوزیشن كی طرف سے جمع كی گئی تحریک اعتماد پر ووٹنگ كے دن ممكنہ تصادم کے خطرے کے پیش نظر آئینی درخواست دائر کی تھی۔
ہفتے كی صبح ترجمان سپریم كورٹ كے ایک بیان میں وضاحت كی گئی كہ جمعے كو سندھ ہاوس پر ہونے والے واقعات كے بعد اعلی عدالت نے محمد احسن بھون كی درخواست كی سماعت جلدی كرنے كا فیصلہ كیا تھا۔
درخواست كی سماعت كے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے كہا كہ وزیر اعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی تحریک پر آئین و قانون كے مطابق عمل ہونا چاہیے۔
انہوں نے وضاحت كرتے ہوئے كہا: ’یہ ایک سیاسی عمل ہے ہمیں اس پر آئین كے مطابق عمل درآمد سے زیادہ تحریک عدم اعتماد میں دلچسپی نہیں ہے۔‘
اس پر اٹارنی جنرل آف پاكستان خالد جاوید کا کہنا تھا کہ آئندہ آئین اور قانون پر سختی سے عمل ہو گا۔
انہوں نے حزب اختلاف كی جماعتوں كو بھی قانون کے مطابق عمل كرنے كی ہدایت كی۔
سماعت كے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل آف پاكستان سے دریافت كیا كہ وہ آزادی رائے اور احتجاج کے حق میں كیا كہنا چاہیں گے؟
انہوں نے كہا كہ ’گذشتہ روز ایسا واقع دیکھا جو آزادی رائے اور احتجاج کے حق کے خلاف تھا۔‘
اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے كہا كہ ’قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز پیش نہیں كیا جا سكتا، اور نہ ہی تشدد كا، پر امن انداز میں احتجاج كا حق ہر شہری كو حاصل ہے۔‘
انہوں نے عدالت كو بتایا كہ 100 احتجاج کرنے والوں کو اسلام آباد پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا تھا، اور بعد ازاں 20 دوسرے لوگ وہاں احتجاج کرنے آگئے۔
انہوں نے مزید كہا كہ ان میں سے 13 افراد كو سندھ ہاوس پر حملے كے الزام میں گرفتار كیا گیا، اور تھانہ سیكرٹریٹ میں ان كے خلاف مقدمہ درج كر لیا گیا ہے۔
تاہم انہوں نے كہا كہ مقامی عدالت نے گرفتار 13 افراد كو ہفتے كی صبح ضمانتوں پر رہا كر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماعت كے دوران ایک موقعے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے كہا كہ ’اراكین پارلیمنٹ، پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں كو تحفظ كی فراہمی كو یقینی بنایا جانا چاہیے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے كہا كہ ’عدالت آرٹیکل 63 اے پر صدارتی ریفرنس پر اس درخواست کی سماعت کریں گی۔‘ جس پر اٹارنی جنرل نے كہا كہ ’صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کا تعلق نہیں ہے۔‘
جسٹس منیب اختر كا اس پر كہنا تھا كہ ’دونوں معاملات کا آپس میں تعلق موجود ہے۔‘
انہوں نے كہا كہ ’سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی کی ذمہ داریوں کی بات کی گئی ہے۔‘
چیف جسٹس نے كہا ’اعلی عدلیہ پارلیمنٹیرین اور سپریم کورٹ بار کا بہت احترام ركھتی ہے۔‘
سماعت كے دوران آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ بھی موجود تھے۔
بعد ازاں عدالت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر پاكستان پیپلز پارٹی، پاكستان مسلم لیگ نواز، پاكستان تحریک انصاف اور جمیعت علما اسلام فضل الرحمٰن کو بھی نوٹس جاری كیے۔
یاد رہے كہ سپریم كورٹ بار ایسوسی ایشن كی درخواست میں وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزارت داخلہ، وفاقی وزارت دفاع، انسپكٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدم اعتماد کا عمل پرامن انداز سے مکمل ہو، عدم اعتماد آرٹیکل 95 کے تحت کسی بھی وزیراعظم کو ہٹانے کا آئینی راستہ ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی بیانات سے عدم اعتماد کے روز فریقین کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے، سپریم کورٹ تمام سٹیک ہولڈرز کو عدم اعتماد کا عمل پرامن انداز سے پورا کرنے کا حکم دے۔