وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے وزیر اعظم عمران خان كو سندھ میں گورنر راج نافذ كرنے كا مشورہ دیا ہے، تاہم قانونی ماہرین كے خیال میں كسی صوبے میں ایسا كرنے كے لیے صرف اس وفاقی اكائی میں موجود حالات كو ہی وجہ بنایا جا سكتا ہے۔
قانونی اور آئینی ماہرین نے سوال اٹھایا كہ ملک میں جو كچھ ہو رہا ہے اس كا مركز وفاقی دارالحكومت اسلام آباد ہے، تو ایسی صورت حال میں صوبہ سندھ میں گورنر راج لگانے كا جواز كیسے بن سكتا ہے؟
سپریم كورٹ بار ایسوسی ایشن كے صدر محمد احسن بھون نے جمعے كو ایک بیان میں صوبہ سندھ میں گورنر راج كے نفاذ سے متعلق مشورے اور خیالات كی مذمت كرتے ہوئے كہا كہ ایسا ہونے كی صورت میں ملک میں جاری سیاسی اور جمہوری عمل بری طرح متاثر ہو گا، اور پاكستان كی وكلا برادری وفاقی حكومت كی طرف سے ایسے كسی بھی قدم كی بھرپور مخالفت كرے گی۔
یاد رہے كہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے جمعرات كو ایک ٹویٹ میں كہا تھا: ’سندھ میں گورنر راج کے بغیر اب کوئی دوسرا حل نہیں ہے، کیونکہ سندھ حکومت ہارس ٹریڈنگ کرکے کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ اب بلیک میلرز اور ووٹ بیچنے اور خریدنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اب سندھ میں گورنر راج لگانا پڑے گا۔‘
انہوں نے ایسا اسلام آباد میں واقع سندھ ہاوس میں پاكستان تحریک انصاف كے منحرف ایم این ایز كی موجودگی كے انكشاف اور ان (ایم این ایز) كے وزیر اعظم كے خلاف تحریک عدم اعتماد كے حق میں ووٹ استعمال كرنے كا عندیہ دینے كے بعد كیا۔
تحریک انصاف كے دوسرے وفاقی وزرا نے بھی صوبہ سندھ میں پاكستان پیپلز پارٹی كی حكومت پر وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كو كامیاب بنانے كے لیے پارس ٹریڈنگ اور ایم این ایز كی وفاداریاں خریدنے جیسے الزامات لگائے۔
تاہم وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے صوبہ سندھ میں گورنر راج كے نفاذ كی مخالفت كرتے ہوئے كہا كہ ہر پارلیمینٹیرین تحریک عدم اعتماد میں اپنے ضمیر كے مطابق ووٹ كے استعمال كا حق ركھتا ہے۔
انہوں نے جمعے كو ایک بیان میں كہا: ’سندھ ہاوس میں جو كچھ ہو رہا ہے وہ میثاق جمہوریت كی كھلی خلاف ورزی ہے۔‘
قانونی ماہرین كی رائے
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، جنہوں نے قانون كی تعلیم حاصل كر ركھی ہے، نے ایک نجی ٹی وی كے ٹاک شو میں كہا: ’لا گریجویٹ كی حیثیت سے میں كہہ رہا ہوں كہ سندھ میں گورنر راج نافذ كیا جا سكتا ہے۔‘
انہوں نے كہا كہ اگرچہ وہ عملی طور پر وكالت نہیں كرتے تاہم وہ پاكستان كی وكلا برادری سے كہتے ہیں كہ آئین وزیر اعظم كو گورنر راج كے نفاذ كا اختیار دیتا ہے۔
دوسری طرف سپریم كورٹ بار ایسوسی ایشن كے صدر محمد احسن بھون نے اپنے بیان میں كہا كہ سندھ میں گورنر راج كے نفاذ كے لیے ہارس ٹریڈنگ كے الزامات كا ثابت ہونا ابھی باقی ہے، اور یہ كسی بھی انتہائی قدم كی وجہ نہیں بنائے جا سكتے۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان كو اپنے ساتھیوں كے ایسے مشوروں سے محتاط رہنے كا مشورہ دیتے ہوئے كہا كہ سندھ میں گورنر راج كا نفاذ ملک و قوم كو كمزور كرنے كی وجہ بن سكتا ہے۔
سابق اٹارنی جنرل آف پاكستان عرفان قادر كی رائے ہے كہ وزیر اعظم عمران خان ان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كا نوٹس جمع ہوتے ہی كسی صوبے میں گورنر راج (ایمرجنسی) كے نفاذ كا حق سے كھو چكے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے وضاحت كرتے ہوئے كہا كہ تحریک عدم اعتماد كی صورت میں وزیر اعظم نارمل آئینی اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور ان میں گورنر راج كے نفاذ كا اختیار بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزید كہا كہ جس طرح عدم اعتماد كا سامنا كرنے والے وزیر اعظم صدر مملكت كو اسمبلیاں تحلیل كرنے كا مشورہ نہیں دے سكتے، اسی طرح وہ گورنر راج نافذ كرنے سے متعلق بھی صدر كے ساتھ کوئی كمیونیكیشن كرنے كی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
عرفان قادر نے كہا كہ موجودہ صورت حال میں سندھ میں گورنر راج نافذ كرنے كا مشورہ آئین پاكستان كی روح كے خلاف ہے، جو تحریک عدم اعتماد كا سامنا كرنے والے وزیر اعظم كو انتظار كرنے كا مشورہ دیتی ہے۔
’آئین كی روح یہ ہے كہ وزیر اعظم اس وقت تحریک عدم انتظار كی ناكامی تك انتظار كریں اور اس كے بعد اپنے آئینی اختیارات پر عمل در آمد كریں۔‘
قانونی ماہر اور سپریم كورٹ آف پاكستان كے وكیل عمران شفیق كا كہنا تھا كہ كسی بھی صوبے میں ایمرجنسی نافذ كرنے كے لیے وہاں ایمرجنسی صورت حال كی موجودگی بہت ضروری ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو كرتے ہوئے انہوں نے كہا كہ اس كے برعكس صوبہ سندھ میں حالات بالكل نارمل ہیں، تو ایسے میں وہاں گورنر راج كے نفاذ كا جواز پیش نہیں كیا جا سكتا۔
انہوں نے كہا كہ جس سیاسی صورت حال كو سندھ میں گورنر راج كی وجہ بنانے كی كوشش كی جا رہی ہے اس كا مركز وفاقی دارالحكومت اسلام آباد ہے نہ كہ صوبہ سندھ۔
گورنر راج ہے كیا؟
پاكستان كے آئین كے دو آرٹیكلز 232 اور 234 صدر مملكت كو اختیار دیتے ہیں كہ كسی صوبے میں حالات كی خرابی كے پیش نظر وہاں كا انتظام خود سنبھال لیں یا اس صوبے كے گورنر كے حوالے كر دیں، اور ایسی صورت حال كو ایمرجنسی یا گورنر راج كہا جاتا ہے۔
آرٹیكل 232 كا عنوان ہے: ’جنگ، اندرونی خلفشار وغیرہ کی وجہ سے ایمرجنسی کا اعلان،‘ جبكہ آرٹیكل 234 کسی صوبے میں آئینی مشینری کی ناکامی کی صورت میں صدر كو (ایمرجنسی یا گورنر راج سے متعلق) اعلامیہ جاری کرنے کا اختیار تفویض كرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم كورٹ كے وكیل عمران شفیق كا موقف تھا كہ آرٹیكل 234 كے تحت سندھ میں ایمرجنسی یا گورنر راج كی كوئی وجہ موجود نہیں ہے كیونكہ وہاں تمام آئینی ادارے آئین كے مطابق كام كر رہے ہیں۔
’صوبہ سندھ میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ احسن طریقے سے كام كر رہے ہیں، اور اس متعلق کوئی شكایت موجود نہیں ہے۔‘
انہوں نے كہا كہ سندھ میں آرٹیكل 234 كے تحت گورنر راج یا ایمرجنسی لگانے كا قطعا کوئی جواز یا وجہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے مزید كہا كہ آرٹیكل 234 كے تحت كسی صوبے میں صدر مملكت كی جانب سے نافذ كی جانے والی ایمرجنسی كا حكم نامہ دو ماہ كے اندر پارلیمان كے مشتركہ اجلاس میں پیش كیا جانے كا پابند ہو گا، اور ایسا نہ ہونے كی صورت میں دو مہینے بعد خود ہی ختم سمجھا جائے گا۔
انہوں نے كہا كہ اس آرٹیكل كے تحت كسی صوبے میں ایمرجنسی یا گورنر راج كے نفاذ سے وہاں كی ہائی كورٹ (پوری عدلیہ) كے اختیارات كو بھی ختم نہیں كیا جا سكتا۔
عمران شفیق نے كہا كہ آرٹیكل 232 كے تحت گورنر راج یا ایمرجنسی لگانے كے لیے كسی صوبے میں جنگ یا اندرونی خلفشار كی موجودگی ضروری ہے، جو اس وقت صوبہ سندھ میں قطعا موجود نہیں ہے۔
انہوں نے وضاحت كرتے ہوئے كہا كہ صوبہ سندھ میں تو امن و امان كی صورت حال بھی ماضی كی نسبت اس وقت بہت بہتر ہے، اور عام قسم كے جرائم میں بھی كمی دیكھنے میں آرہی ہے۔
’آرٹیكل 232 كے تحت بھی گورنر راج كے نفاذ كا امكان دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔‘
انہوں نے مزید كہا كہ اس آرٹیكل كے تحت جنگ یا اندرونی خلفشار كی صورت میں صوبائی اسمبلی ایک قرارداد كے ذریعے صدر مملكت كو صوبے میں ایمرجنسی كے نفاذ كی ہدایت كرتی ہے۔
ان کے مطابق ’صدر مملكت اپنے طور پر صوبے میں ان وجوہات كی بنا پر ایمرجنسی كا نفاذ نہیں كر سكتے ہیں۔‘