پاکستانی مصنف اکرام بسرا کا ڈراما ’دا جاب‘ گذشتہ ہفتے امریکہ میں آن لائن پیش کیا گیا۔
یہ ڈراما ایک انتہائی حساس موضوع پر بنایا گیا ہے جس میں اس حقیقت کو بڑے سنجیدہ طریقے سے سامنے لایا گیا کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 یعنی نائن الیون کے حملوں کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستانی فوج اور ایک عام پاکستانی نے کس طرح جانی و مالی نقصان اٹھایا۔
آج کل امریکہ کی یونیورسٹی آف آئیووا کے پلے رائٹس ورکشاپ کے رکن سرگودھا سے تعلق رکھنے والے اکرام بسرا نے اپنے ڈرامے کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو میں بتاتا کہ وہ اس پلے پر گذشتہ ایک سال سے کام کر رہے ہیں لیکن انہیں اس کا خیال تب ہی آ گیا تھا جب سوات میں صحافی موسیٰ خان خیل کا قتل ہوا۔
نجی چینل ’جیو نیوز‘ کے صحافی کو 18 فروری 2009 کو سوات کی تحصیل مٹہ میں نامعلوم افراد نے قتل کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سوات میں طالبان کا راج تھا۔ ’میں سوچتا رہا کہ موسیٰ نے قتل ہونے سے پہلے، اپنے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہوگا؟ یا جب ایک عام آدمی کسی دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو وہ مرنے سے پہلے کیا سوچتا ہوگا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اکرام نے ’دا جاب‘ میں بھی میں نے ایک صحافی، نعمت اللہ، کی کہانی بیان کی ہے، جسے ایک ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا:’یہ ایک ون مین شو ہے جس میں ایک صحافی کی زندگی اور مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتے ہوئے یہ دکھایا گیا ہے کہ اس کے مسائل نائن الیون سے پہلے کیا تھے اور بعد میں کیا ہیں، اور کس طرح عالمی سطح پر ریاستوں کے آپس میں اختلافات اور تصادم سے ایک عام آدمی کی زندگی کو فرق پڑتا ہے۔‘
اس پلے میں لیڈ رول ہالی ووڈ ایکٹر اویس احمد نے ادا کیا ہے جو فلم ’بیٹ میں ورسز سپر مین‘ میں بھی کام کر چکے ہیں اور اس کی ہدایت کاری سارہ گیزڈووچ ہیں۔
اکرام کا کہنا تھا یہ ڈراما کو پروپیگنڈا نہیں اور نہ ہی کسی ادارے نے اسے فنڈ کیا ہے بلکہ یہ خالصتاً ان کی اپنی سوچ سے نکلا ہے۔
اکرام نے اس ڈرامے کے ذریعے نائن الیون کے بعد پاکستان میں ہونے والے بڑے دہشت گرد حملوں کو اس طرح پیش کیا کہ دنیا جان سکے کہ ان حملوں کا ایک عام پاکستانی پر کیا اثر ہوا۔
اکرام کہتے ہیں: ’پاکستان جیسے ملک میں تھیٹر کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ تھیٹر وہ واحد آرٹ فارم ہے جس میں آرٹ کی تمام جہتیں مل کر کام کرتی ہیں۔جب اتنی ڈائیورسٹی ایک جگہ اکٹھی ہوتی ہے اور یہ سارے لوگ جب ایک چیز پر کام کرتے ہیں تو ایک ایسا پراڈکٹ سامنے آتا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ خود کو جوڑ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اگر مختلف صوبوں سے، فرقوں سے، سیاسی جماعتوں سے، لوگوں کو ایک دوسرے کے سامنے، ایک دوسرے کی کہانیاں پرفارم کرنا پڑیں تو انہیں ایک دوسری کی طاقت اور کمزوریوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور اپنے آپ کو انہی کمزوریوں اور طاقت کے ساتھ قبول کرنے میں آسانی ہوگی۔ اس طرح ہمیں ایک موقع ملے مجموعی طور پر ایک بہتر معاشرے کی طرف بڑھنے کا۔‘
اکرام کے دو ڈرامے ’فمیلیئر لافٹر‘ اور ’دا جاب‘ یونیورسٹی آف آئیووا کے پلے رائٹنگ نصاب میں بھی شامل ہیں جبکہ ’فمیلیئر لافٹر‘ آئیووا اور انڈیاناپولس میں پیش کیا جا رہا ہے۔
’دا جاب‘ یہاں آن لائن یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔