کھیل کا میدان ہو یا جنگ کا محاذ، عزت انہی کی ہوتی ہے جو بے جگری سے لڑتے ہیں اور آخری سانس تک جیت کی کوشش کرتے ہیں۔ جو جیت کا عزم لے کر میدان میں آتے ہیں ان کی شکست بھی پھولوں سے لد جاتی ہے اور داد و تحسین کے نغمات بجائے جاتے ہیں۔
شاید تاریخ کا یہ سبق پاکستان کرکٹ ٹیم نے پڑھا تو ہو لیکن اس پر عمل سوچا نہ ہو اسی لیے لاہور ٹیسٹ میں شکست کے خوف کے سائے میں جب ڈرا کی کوشش کی تو شکست نے پوری طرح جکڑ لیا۔
پاکستانی ٹیم جسے اپنی بیٹنگ پر ناز تھا اور اس نے گذشتہ ایک سال میں صرف فتوحات سمیٹی تھیں جس کے کھلاڑیوں کو جیت اتنی آسانی سے ملتی رہی تھیں اسے طویل عرصہ کے بعد ایک اعلیٰ معیار کی ٹیم سے جب مقابلہ کرنا پڑا تو قلعی کھل گئی۔
آسٹریلیا نے پاکستان کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلے جانے والے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر سیریز بھی اپنے نام کر لی ہے۔
لاہور میں کھیلے گئے آخری ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا نے دونوں ہی اننگز میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو 115 رنز پر شکست دی۔
پاکستان کو میچ کے پانچویں روز جیت کے لیے 278 رنز درکار تھے جبکہ اسی دس وکٹیں باقی تھیں تاہم ایک بار پھر بیٹنگ لڑکھڑا گئی۔
اپنے ہی گھر میں اپنی ہی پچوں جہاں رنز کے انبار لگا دیتے ہیں وہاں جب معیاری بولرز سے واسطہ پڑا تو بیٹ کا گیند تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔
لاہور ٹیسٹ کے آخری دن ریورس سوئنگ بھی نہیں مل رہی تھی لیکن ضرورت سے زیادہ دفاع نے ان کینگروز بولرز کو سر پد چڑھا دیا جن کے لیے پچ میں کچھ بھی نہ تھا۔
نیتھن لائن جن کی یہ پوری سیریز خراب رہی آخری دن آسٹریلیا کے خطرناک بولر بن گئے اور جو کمی فاسٹ بولرز نے چھوڑی اسے پورا کر دیا۔
پاکستان کی طرف سے امام الحق اور بابر اعظم ہی دو بلے باز تھے جنہوں نے نصف سنچریاں سکور کیں جبکہ دیگر بلے بازوں میں سے کوئی 30 کا ہندسہ بھی نہ چھو پائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب آسٹریلیا کی جانب سے نیتھن لائن پانچ اور کپتان پیٹ کمنز تین وکٹیں لے کر نمایاں بولر رہے۔
لاہور ٹیسٹ اور سیریز جیتنے پر جہاں آسٹریلیا کو مبارک باد دی جا رہی ہے وہیں سوشل میڈیا پر پاکستان کی ’اپروچ‘ اور ’سوچ‘ پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی شکست وجہ اس کا دفاعی انداز قرار دیا جا رہا ہے اور ساتھ میں چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سپورٹس صحافی عالیہ رشید نے لکھا کہ ’ثابت ہوا 24 سال بعد بھی ہم وہیں کے وہیں ہیں، اگلے 24 سال کا پتہ نہیں۔‘
پاکستان کے سپیڈ سٹار شعیب اختر نے لکھا: ’بہادر فیصلے سے شان و شوکت ملتے ہیں۔ کراچی میں پاکستان کی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے گذشتہ روز ڈیکلیئر کرنے کا فیصلہ بہادری تھی۔ اسی حوصلے نے آسٹریلیا کو میچ جتوایا۔ برصغیر میں بہترین فتح۔‘