فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے منی لانڈرنگ اور دہشت گروں کی مالی امداد روکنے کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر آرلینڈو میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں صرف تین رکن ممالک چین، ترکی، ملائشیا نے پاکستان کی حمایت کی۔
ایف اے ٹی ایف کے 38 اراکین میں سے باقی سب نے مقررہ اہداف پورے کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد کی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کیا۔
ماہرین پاکستان کی کوششوں کے باوجود ایف اے ٹی ایف کے تشویش کے اظہار کو اسلام آباد کے لیے ایک سنجیدہ صورت حال قرار دیتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا یہ پاکستان کے لیے کافی سنجیدہ صورت حال ہے۔ ’دفاعی پوزیشن اپنانے کے بجائے پاکستان کو سخت اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہییں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایف اے ٹی ایف اور عالمی برادری پاکستان کو جو کچھ کرنے کا کہہ رہی ہے وہ خود پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔
پولیٹیکل سائنس کے استاد اور تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین نے بھی موجودہ صورت حال کو پاکستان کے لیے ’سنجیدہ مسئلہ‘ قرار دیا۔ ’کسی اور کو ذمہ دار قرار دینے کے بجائے پاکستان کو اپنے حالات درست کرنا ہوں گے۔‘
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا ’ایف اے ٹی ایف کے اکتوبر کے اجلاس میں پاکستان کو کم از کم 15 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔ دوسری صورت میں پاکستان بلیک لسٹ میں چلا جائے گا، جو کوئی بہتر صورت حال نہیں ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا ’میرا نہیں خیال کہ پاکستان اکتوبر کے اجلاس میں 15 اراکین کی حمایت حاصل کر پائے گا۔‘
بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا اسلام آباد کو ایسے مضبوط اور معتبر شواہد پیش کرنا ہوں گے کہ دنیا اس پر یقین کرلے۔ ’پاکستان کے لیے بہت زیادہ چیلنجز ہیں، لیکن یہ نا ممکن نہیں۔ صرف سنجیدگی اور اچھی نیت کی ضرورت ہے۔‘
اس حوالے سے تجزیہ کار، صحافی اور مصنف زاہد حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر کام عین وقت پر کیا جاتا ہے۔ ہمیشہ اقدامات تب اٹھائے جاتے ہیں جب ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈ لائن قریب پہنچ جاتی ہے۔
تینوں ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان جو شواہد اور ثبوت دنیا کے سامنے رکھتا ہے وہ اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ کوئی ان پر یقین نہیں کرتا۔
جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا ’دراصل ہم اندر سے کچھ ہیں اور باہر سے کچھ۔ لیکن دنیا تو دیکھ رہی ہے اور اسی لیے ہم پر اعتبار نہیں کیا جاتا۔‘
پروفیسر رفعت حسین کا کہنا تھا جب ایف اے ٹی ایف اراکین کی بڑی تعداد ہمارے خلاف ہے تو کچھ تو ہے نا۔
ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’پاکستان کے پاس مضبوط ثبوت کیوں نہیں ہیں جو دنیا کو قابل قبول ہوں؟‘
دوسری جانب، زاہد حسین کا کہنا تھا کہ جو اعلانات حکومت نے کیے تھے وہ پہلی مرتبہ نہیں ہوئے تھے۔ ’ہم نے کئی دفعہ تنظیموں پر پابندیاں لگائیں اور ان کے بینک اکاؤنٹس اور فنڈز بند کیے، لیکن ہر مرتبہ اندرون خانہ کام ہوتا رہا۔‘
اگر پاکستان بلیک لسٹ میں چلا جاتا ہے تو کیا ہوگا؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر رفعت حسین نے کہا اس سے صورتحال بڑی خراب ہو جائے گی۔ آپ کا حقہ پانی بند ہو جائے گا، آپ دنیا میں کاروبار نہیں کر سکیں گے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے آپ کی امداد روک دیں گے۔
’سب سے بڑی بات کہ آپ کے دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ پاکستان دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کرتا ہے۔‘
زاہد حسین نے کہا پاکستان 2015 میں بھی ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جا چکا ہے اور اُس وقت بھی پاکستان پر معاشی پابندیاں لگی تھیں۔ ’اس مرتبہ بھی یہی کچھ ہو گا۔ آپ کے ہاں سے بیرون ملک مالی ترسیلات نہیں ہو پائیں گی اور کاروباری ادارے لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھول سکیں گے۔‘
ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟
یہ ایک عالمی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں جی۔سیون سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا۔
اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم، 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے۔
ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنا اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا۔
ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا شامل ہیں، البتہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔
ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل ہوا۔
ایف اے ٹی ایف معاملے پر بھارتی بیان مسترد
پاکستان نے ایف اے ٹی ایف اعلامیے پر بھارتی بیان کو مسترد کر دیا ہے۔
بھارت کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں ’امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان ستمبر 2019 تک دی گئی مہلت کے دوران ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر موثر عمل درآمد کے لیے اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے ہونے والی دہشت گردی اور اس کے لیے فنڈنگ پرعالمی تشویش ختم کرنے کے لیے مصدقہ اور مستحکم اقدامات اٹھائے گا‘۔
تاہم، پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے بھارتی بیان کو ایک مخصوص سوچ کا عکاس اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا بیان ایف اے ٹی ایف معاملے کو سیاسی رنگ دینے کا ایک اور ثبوت ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان نے اپنے خدشات ایف اے ٹی ایف سے شیئر کیے ہیں اور امید ہے ایف اے ٹی ایف بھارت کے اس عمل کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کو مسترد کرے گی۔