مر جائیں گے بھائی دفتر آتے آتے، کام دھندہ کیسے کریں گے؟
اچھے سکول، کالج، ہسپتال، ہوٹل، یہ سب کے سب آپ سے دور ہوں گے اور ایک بار گھر گھس کے آپ پھر کسی ایمرجنسی پہ ہی باہر نکلیں گے۔
اصل میں یہ سب کچھ آپ سے دور نہیں ہو گا، آپ جان بوجھ کے ان سب سے دور بھاگے ہوں گے۔
ہم شہر سے باہر گھر کیوں بناتے ہیں؟ سکون کے لیے؟ ٹریفک کے شور سے بچنے کے لیے؟ کھلی جگہ پہ رہنے کے لیے؟ سرسبز ماحول میں درختوں کے نیچے موجیں مارنے کے لیے؟ کھلی سڑکوں پہ ٹہلنے کے لیے؟
واپس آتے آتے سڑکوں پہ خواری کے بعد آپ ان میں سے کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ سیدھے بیڈروم جا کے لیٹتے ہیں اور شل ہوجانے والی ٹانگوں کے ساتھ ورزش کرنے کے طریقے موبائل پر دیکھ کے خوش ہوتے ہیں۔
اگر آپ شدید امیر نہیں ہیں، دفتر وغیرہ جانا ہی جانا ہے، ڈرائیور کھلی جیب سے افورڈ نہیں کر سکتے، گھر میں سکول کالج جانے والی قوم موجود ہے تو بھیا شہر کے بیچ میں کہیں دو کمروں میں رہ لیں، برباد ہو جائیں گے ہریالیوں کے چکر میں!
کرائے پہ گھر لینا ہے تو بھی چھوٹا ڈھونڈ لیں مگر شہر میں ہی رہیں۔ بڑے گھر کو بھرنا بھی ایک الگ ٹاسک ہے اور اس کی صفائی ستھرائی جیب پہ شدید بوجھ۔ سب کچھ ہو بھی گیا لیکن روز گھر سے نکلنا آپ کو عذاب لگتا ہے تو کیا فائدہ ہوا اس سب مشقت کا؟
زندگی میں بہت کچھ ملازمتوں کے درمیان سیکھنے کا تجربہ ہوا۔ یونس بلو صاحب ایک زمانے میں باس تھے میرے، خدا انہیں صحت زندگی دے، ارب پتی آدمی لیکن دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ آج سمجھ آتا ہے کیوں رہتے تھے۔
شہر میں شاید تین مرلے کا گھر اتنے میں بنے جتنے پیسوں میں باہر آپ 10 مرلے کا بنا لیں گے، ٹھیک؟ لیکن یار روزانہ کا پیٹرول، گاڑی کے خرچے، سکول کالج کی ویگنیں، قسم لے لیں مت ماری جائے گی!
چھٹی والے دن اگر آپ کو شہر جانا پڑا تو جیسے ڈراؤنا خواب ہوتا ہے نا، وہ حال ہو گا، سودا لانا ہو، سواری ٹھیک کرانی ہو یا کوئی بھی کام ہو۔
خدانخواستہ ہسپتال جانا پڑا تب بھی شہر سے باہر والے گھما پھرا کے آپ کو کسی نہ کسی کام سے بیچ شہر بھیج ہی دیں گے۔ مرض کی نوعیت ذرا سی پیچیدہ ہوئی تو مریض کو بھی لے جانا پڑے گا۔۔۔ پھر سفر؟
آپ کو ایک شکایت یہ بھی ہو گی کہ لوگ آپ کے گھر نہیں آتے، ہر جگہ آپ کو خود جانا پڑتا ہے۔ خدا کے بندے، گھر آپ لیں کالے کوس پہ اور قصور دوست یاروں کا ہو؟
دیکھیں عام رواج سے الٹ لگے گی آپ کو یہ بات لیکن اس ایک پرہیز سے آپ کی ہزاروں کلومیٹر کوفت اور زندگی کے ڈھیر سارے صحت مند گھنٹوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پرانے زمانے میں بزرگ پیدل کیوں چلتے تھے؟ شہر کے بیچ میں گھر ہوتا تھا، بازار قریب، دفتر ساتھ، کلینک بغل میں، پھل والا سڑک پار، سکول اگلے محلے، فوٹو کاپی یہ نکڑ پہ، گنڈیری کھانی ہے وہ بھی ٹھیلے والے خود لے آئے گا، سواری پہ کدھر جائیں گے بھئی؟ تو شہر کے اندر بھلے آلودہ ہوا ملے گی آپ کو لیکن اس میں ٹہلنے کے لیے جو وقت چاہیے ہوتا ہے کم از کم وہ میسر ضرور ہو گا۔
ایک اور اہم مسئلہ موسم کا ہے۔ دھند اور سموگ تین مہینے تک پھیل چکے ہیں، پہلے یہ سب خالی جنوری میں ہوتا تھا۔ اب کہیں بھی جانا ہے آپ نے صبح سات بجے تو روز اندھی ڈرائیونگ کے لیے تیار رہیں۔ گرمیوں کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے، سواری فل ٹائم قابل اعتبار حالت میں رکھیں ورنہ معمولی خرابی ابلے تارکول پہ چلا سکتی ہے بڑے آرام سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزے کی بات یہ ہے کہ آپ تو آ گئے شہر سے باہر، آس پاس والے گاؤں دیہاتوں کی موج لگ گئی۔ انہیں پتہ ہے پارٹی موٹی ہے تبھی اس علاقے میں بیٹھی ہے۔ دودھ، دہی، سبزی، گوشت، پائپ، ٹونٹی، تیل، گملے، سبھی کچھ آپ کو شہر سے زیادہ ریٹس پہ ملے گا۔ اگر ہر چیز شہر ہی سے لانی ہے یا بات بات پہ ادھر کے ریٹ یاد کرنے ہیں تو بابا جاتے کیوں ہیں؟
سیدھی سادی ایک نمبر بات یہ ہے کہ اگر مال پانی جیب میں ہے اور تپڑ وافر ہے، دل گردہ فراخ رکھتے ہیں تو بسم اللہ، ورنہ قسمے نرا گھاٹے کا سودا ہے۔ چھٹی والا ایک دن شیر کی زندگی ہوگی اور باقی 100 برس وہی گیدڑ پنا چلے گا۔
اب صرف ایک بات رہ گئی۔ شہر کی تعریف کیا ہوگی اور کون سا علاقہ شہر سے باہر کہلائے گا؟ سیدھا ترین فارمولہ یہ رکھ لیں کہ 30 سال پہلے جہاں تک شہر پھیلا تھا ادھر پہنچ جائیں اور گھس پھس کے جیسے تیسے جگہ بنا لیں۔ اگلے 30 سال کی پلاننگ رکھ کے بھلے زمینیں جائیدادیں شہر سے باہر بنائیں لیکن اگر وقت اور دماغ بچانا ہے تو تھوڑا حساب کتاب لگا کے فیصلہ کریں۔
باقی رہ گئی ہریالی، ریٹائرڈ زندگی کا سکون، شوروغل نہ ہونا تو استاد، بقول شخصے، سکون صرف قبر میں ہے اور قبر سے یاد آیا کہ اچھے ہسپتال سے گھر جتنا دور ہو موت اسی تناسب سے قریب ہو جاتی ہے!