وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں اتوار تین اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے پاکستانی آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت رد کیے جانے کے بعد صدر پاکستان عارف علوی نے حکومتی تجویز پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
اس اقدام سے بظاہر پاکستان نئے انتخابات کی جانب جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
تاہم سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں تو کیا صرف وفاق میں الیکشن ہوسکتا ہے؟ اور اگر چاروں صوبوں میں کوئی ایک صوبہ اسمبلی تحلیل نہ کرنا چاہے تو کس قسم کی صورتحال سامنے آ سکتی ہے اور آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں انتخابات وپارلیمانی امور کے تجزیہ کار اور ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے آئین میں کہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو یہ کہتی ہو کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں گے۔
یہ صرف موافق حالات اور اچانک بننے والی صورتحال پر منحصر ہوتا ہےجس کے نتیجے میں انتخابات کیے جاتے ہیں۔
’یہ غالباً 80 کی دہائی کی بات ہے کہ پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن قومی اسمبلی کے الیکشن سے چند دن قبل یا بعد میں کروائے جاتے تھے۔ بعدازاں فیصلہ آیا کہ ایک ہی دن انتخابات کروائے جائیں گے۔‘
انہوں نے پاکستانی ہمسایہ ملک ہندوستان کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ماضی میں سٹیٹ اسمبلی اور لوک سبھا کا انتخاب ایک ہی دن ہوا کرتا تھا تاہم بعدازاں کسی ایک ریاست کی اسمبلی تحلیل ہوجانے کے بعد الگ الگ الیکشن ہونے کی روایت بن گئی۔
’ہمارے برعکس وہاں 28 اسمبلیاں ہیں، لہذا وہاں ہر ریاست کی اسمبلی پانچ سال کی مدت مکمل پوری کرنے کے بعد الیکشن کرتی ہے، جس کی وجہ سےوہاں سالہا سال الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ ‘
احمد بلال محبوب کے مطابق ’سارا سال الیکشن کے ماحول سے معیشت، عوام اور ملک کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی وجہ سے ہندوستان میں عدم اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے، لہذا اب ماہرین تمام ریاستوں کو ایک ساتھ الیکشن کروانے کی تجویزدیتے آرہے ہیں۔‘
انہوں نے پاکستان کے موجودہ صورتحال کی وضاحت پر مزید بتایا کہ آئیڈیل یہی ہوگا کہ تمام انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں۔
’ابھی کچھ دن قبل خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، پھر پنجاب میں ہوں گے، پھر اگر وفاق اور بعد میں صوبوں کے ہوں تو اس سے توجہ اصل معاملات سے ہٹ جائے گی اور عوام بھی ڈسٹرب رہیں گے۔‘
سندھ اسمبلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ عین ممکن ہے کہ سندھ حکومت اسمبلی تحلیل کرنے سے انکار کرے کیونکہ اس سے قبل جب یہی معاملہ پی ڈی ایم نے اٹھایا تھا تو پیپلز پارٹی نے اس تجویز کو مسترد کیا تھا۔
’سندھ کے وزرا اور ارکان اسمبلی کہیں گےکہ ہم عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں اتنا پیسہ لگایا ہم کیوں تحلیل کریں اسمبلی۔ پانچ سال تو کم ازکم رہیں۔‘
سیاسی بحران معاشی نقصان کا سبب بنتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے چئیرمین اور ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر زلاکت خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیاست اور معاشیات دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیے جاسکتے، کیونکہ دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
’جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے تو اس سے معاشی عدم استحکام کا آنا ایک لازمی چیزہے۔ کیونکہ سیاسی بحران کے دوران فیصلے وقت پر نہیں لیے جاتے۔ فیصلوں اور منصوبوں میں تسلسل اور دوام نہیں رہتا، جس کے خطرناک نتائج معاشی نقصان کی صورت میں آتے ہیں۔‘
پروفیسر زلاکت نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل تمام میڈیا فورمز پر ’مہنگائی اور بنیادی مسائل کی باتیں ہوتی تھیں۔ تاہم جب سے یہ تحریک چلی ہے، تمام تر توجہ سیاسی حالات وواقعات پر مرکوز ہوگئی ہے۔ عام آدمی کی حالت زار پر اب کوئی بات نہیں کرتا، اور اسی کا وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز ذکر کیا کہ اب کوئی نہیں پوچھتا کہ پیاز اور ٹماٹر کا بھاؤ کیا ہے۔‘
ماہر معاشیات ذلاکت خان کا مزید کہنا ہے کہ جب ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو باہر سے کوئی سرمایہ کاری کرنے نہیں آتا، جس کے نتیجے میں معیشت کمزور ہوتی ہے اور جو غربت وبیروزگاری کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
’یہ کسی ایک سیاسی جماعت کے لیے ممکن نہیں کہ معیشت کو ٹریک پر لائیں۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر کوئی حل نکالنا ہوگا۔ ملکی معیشت کو قانونی تحفظ دینے کے لیے یونیفارم پالیسی بنائیں گے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں، منصوبوں پر کام نہیں رکے گا۔ فی الحال ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے ہمارے پاس۔‘