وزیراعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا پانسہ پلٹنے اور عمران خان کی تجویز پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کے صدر مملکت کے اعلان کے بعد ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین کے گرما گرم بیانات اور فیصلے تو سامنے آہی رہے ہیں لیکن سیاسی کارکنان بھی اس وقت جذبات کی رو میں بہتے ہوئے کہیں سوشل میڈیا پر تند و تیز الفاظ استعمال کر رہے ہیں تو کہیں مخالف سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور تشدد کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
عدم برداشت کی یہ صورتحال صرف سوشل میڈیا، سڑکوں، دفاتر یا ایوانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ مختلف خاندانوں اور دوستوں کے گپ شپ کے لیے بنے فیملی واٹس ایپ گروپس میں بھی تلخیاں بڑھنے لگی ہیں۔ حتیٰ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اس صورتحال سے متاثر ہوئے ہیں۔
ایک حالیہ واقعہ لندن میں پیش آیا، جہاں مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو موبائل مار کر ان کے گارڈ کو زخمی کرنے اور ان کی رہائش گاہ پر حملے کا الزام پی ٹی آئی کے کارکنوں پر لگایا جا رہا ہے۔
عدم برداشت بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟
سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ سیاسی صورتحال کا پارٹی کارکنان پر اثر ایک حقیقی عمل ہے ہر سیاسی جماعت کے کارکن اپنی پارٹی کے حق میں پر جوش ہوتے ہیں اور مخالفین کے خلاف ردعمل یا احتجاج کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ ردعمل پر تشدد واقعات میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہمارے ہاں لیڈرز چونکہ ذاتی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، اس لیے ان فیصلوں کے اثرات عام لوگوں پر بھی مثبت یا منفی انداز میں پڑتے ہیں۔‘
بقول حسن عسکری: ’پاکستان کے سیاسی ماحول میں کارکن اپنے طور پر زیادہ جذباتیت کا اظہار کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ قریبی دوستوں یا رشتے داروں سے بھی نالاں ہوجاتے ہیں جبکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ سیاست دان ان کی طرح آپس میں ذاتی رنجشیں نہیں رکھتے۔‘
حسن عسکری کے مطابق: ’تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف جس طرح کی بیان بازی کرتے ہیں، ان کے کارکن بھی آپس میں اسی طرح الجھتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ہوں، سڑکوں پر، دفاتر ہوں یا نجی محفلیں، عام سی گفتگو بھی تلخیوں میں بدل جاتی ہے۔ یہ صورتحال کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب جیسے پارلیمنٹ میں صورتحال بنی، پہلے اپوزیشن جماعتوں کے کارکن حکومت ہٹائے جانے کی امید پر خوشی کا اظہار کر رہےتھے اور پی ٹی آئی کے کارکن نالاں تھے، لیکن اب اسمبلیاں ٹوٹنے پر پی ٹی آئی کارکن خوش جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے کارکن ناراض ہوگئے۔ اگر اب سپریم کورٹ جمعے تک فیصلہ کرتی ہے اور فیصلہ جس جماعت کے موقف کے خلاف آیا تو ان کے کارکنوں میں غصہ بڑھ جائے گا۔‘
تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے جذبات پر بھی حالات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اثر پڑتا ہے اور کارکن اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر صورت حال پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جس طرح صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے اور ٹینشن بڑھ رہی ہے، اس کا واحد حل نئے انتخابات ہیں تاکہ لوگ خود فیصلہ کرسکیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔‘
بقول سہیل وڑائچ: ’بحث ومباحثہ تو فطری ہے لیکن سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تلخیاں بڑھانا اور لڑائی جھگڑے نامناسب ہیں۔‘
سیاسی کارکنان کی گرما گرمی تو ایک طرف لیکن رشتے داروں کے وٹس ایپ گروپوں میں تلخیاں کیوں بڑھ رہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں لاہور کے رہائشی عدیل ملک نے بتایا کہ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو ان کے فیملی وٹس ایپ گروپ میں بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہے۔
عدیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے فیملی میں گپ شپ کے لیے وٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے جس میں خاندان سے تعلق رکھنے والے مرد اور خواتین کی تعداد 200 ہے اور اس میں ہر جماعت کو پسند کرنے والے موجود ہیں۔‘
بقول عدیل: ’لیکن جب سے اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی اور اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن کے ساتھ جانے کا اعلان کیا، ہمارے وٹس ایپ گروپ کا ماحول بھی کافی خراب ہوگیا۔‘
’میری دو غیر شادی شدہ کزنز پی ٹی آئی کی حامی ہیں جبکہ سیالکوٹ میں رہنے والا ایک کزن اور ماموں ن لیگ کے حامی ہیں۔ ان میں پہلے بھی نوک جھونک جاری رہتی تھی لیکن تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد سخت جملوں کا تبادلہ ہوتے ہوتے بات تلخیوں تک پہنچ گئی۔‘
بقول عدیل: ’گروپ میں شامل بڑوں نے معاملہ ختم کروایا مگر پھر کسی بات پر جملے بازی اور میمز شیئر ہونا شروع ہوگئیں، کبھی کسی کا ٹویٹ یا فیس بک پوسٹ شیئر ہوئی تو معاملہ خراب ہوتا جاتا، بالآخر کل رات کو میری خالہ خود ایڈمن بن گئیں اور سب کا میسجز یا جملے لکھنے کا آپشن بند کردیا۔ اب طے یہ ہوا ہے کہ صرف ضروری اطلاع یا پیغام خالہ کے ذاتی نمبر پر بھیجا جاسکتا ہے، جسے وہ گروپ میں پوسٹ کریں گی۔‘
قائدین کے سخت بیانات اورتشدد کے واقعات
موجودہ صورتحال کی اگر بات کریں تو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے والے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اپوزیشن رہنماؤں کو ’غیر ملکی سازش‘ پر حکومت ختم کرنے کا الزام لگاکر ’غدار‘ قرار دیا جارہا تھا۔
اسی طرح جب تین اپریل کو وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے بچنے کے لیے اسمبلیاں تحلیل کروائیں تو مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اقتدار کی ہوس میں ڈوبے ہوئے جنونی شخص نے آج آئین کو پاؤں تلے روندا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان اور اس سازش میں ملوث تمام سازشی کردار سنگین غداری کے مجرم ہیں، جن پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے۔‘
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ’سڑکوں پر گھسیٹنے‘ کی بات کی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ایسے ہی سخت بیانات دے چکے ہیں۔
سیاسی قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات سے کارکنوں کا جذباتی ہونا فطری عمل ہے اور حالیہ دنوں میں ایسے واقعات پیش بھی آئے جب پی ٹی آئی کارکنوں نے سندھ ہاؤس، اسلام آباد پر دھاوا بولا اور منحرف اراکین کے حلقوں میں ان کے ناموں اور تصاویر پر سیاہی پھیر دی گئی۔
کئی اراکین کے گھروں کے باہر پی ٹی آئی کارکن لوٹے لے کر پہنچ گئے۔ لاہور میں جس ہوٹل میں اپوزیشن نے اراکین کو ٹھہرایا تھا، اس کا گھراؤ کرکے احتجاج کیا گیا۔
اسی طرح برطانیہ میں پی ٹی آئی کارکنوں نے مبینہ طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف موبائل فون دے مارا، جس سے ان کا گارڈ زخمی ہوگیا جبکہ ان کی رہائش گاہ کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے پی ٹی آئی اوور سیز پاکستانیز کے رہنما میاں طارق کہتے ہیں کہ کارکن جذباتی ہوکر یہ سب کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’جب خان صاحب خطاب میں نواز شریف کو کرپٹ اور ملکی مفادات کے خلاف قرار دیتے ہیں تو یہاں کارکن جذباتی ہوکر نواز شریف کی رہائش گاہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں پرتشدد ہونے کی کال نہیں دی جاتی لیکن وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ردعمل دیتے ہیں۔‘
ٹی وی ٹاک شوز میں بھی سیاسی رہنماؤں میں تلخیاں بڑھنے کے اثرات کارکنوں تک آتے ہیں۔
ماضی میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں میں لڑائی جھگڑے کے سنگین واقعات بھی سامنے آئے۔ جیسے گذشتہ عام انتخابات سے قبل لاہور میں بھاٹی گیٹ پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کو گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا اور تحریک انصاف کی قیادت نے اس کا الزام مسلم لیگ ن پر عائد کیا تھا۔
اسی طرح جب لیگی حکومت کے خلاف تحریک انصاف کا لانگ مارچ اسلام آباد سے جارہا تھا تو گجرانوالہ میں ن لیگ کے کارکنوں نے ان پر پتھراؤ کیا تھا۔
ملک کی سیاسی صورت حال کا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی کارکنوں کے جذباتی ہونے پر مزید تلخیاں بڑھیں گی۔
بقول حسن عسکری: ’تحریک عدم اعتماد کے بعد عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے۔‘