کیا ایم کیو ایم پھر سے متحرک ہونے والی ہے؟

ایم کیو ایم کے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے دو نئے مقرر کردہ رہنما گرفتار پارٹی کارکنوں کے مقدمات کی پیروی کریں گے اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔

ایم کیو ایم کے حامی 23 جولائی 2018 کو کراچی میں عام انتخابات سے قبل ایک مہم کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے پارٹی کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں (تصویر: اے ایف پی/ فائل)

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیئر رہنما قاسم علی رضا نے پیر کو بتایا  کہ پاکستان میں مقیم دو رہنماؤں کو پارٹی کی مرکزی رابطہ کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا ہے اور ایم کیو ایم بتدریج ملک میں تنظیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرے گی۔

عرب نیوز کے مطابق قاسم علی رضا کا کہنا تھا: ’ہم نے رابطہ کمیٹی کے سینیئر رکن کنورخالدیونس کو پارٹی کا سینیئر ڈپٹی کنوینر اور مومن خان مومن کو ڈپٹی کنوینر مقرر کیا ہے۔ قاسم علی رضا ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں رہنما پاکستان میں موجود ہیں۔ رضا نے لندن سے ٹیلی فون پر عرب نیوز کو بتایا کہ’ہم پاکستان میں بتدریج اپنی تنظیمی سرگرمیاں شروع کریں گے۔‘

ایم کیو ایم کے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے دو نئے مقرر کردہ رہنما گرفتار پارٹی کارکنوں کے مقدمات کی پیروی کریں گے اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔

پارٹی نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے الطاف حسین کی تقاریر پر عائد پابندی کے خاتمے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی ہے۔

رضا کا کہنا تھا کہ اگر عدالت نے حق میں فیصلہ دیا تو اس سے پارٹی کو مدد ملے گی۔ ان کے مطابق: ’اگرعدالت الطاف حسین کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے اور ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی ختم کر دیتی ہے تو پاکستان میں الطاف حسین سے محبت کرنے والے یقیناً خوش ہوں گے۔ ہمیں تنظیم کی تعمیر نو کے لیے نئے عہدے داروں کی بھی ضرورت ہوگی۔‘

رضا نے کہا کہ پارٹی نے یہ درخواست کی بھی کی ہے کہ کراچی میں’غیرقانونی طور سربمہر‘ کیا گیا۔ پارٹی کا مرکزی دفتر اس کی قیادت کو واپس کیا جائے۔ ’پارٹی سرگرمیاں وہیں سے شروع ہوں گی۔ ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ الطاف حسین کی تقریر نشر کرنے پر پابندی ہٹائی جائے اور ہمیں سماجی اور سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔‘

ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما مصطفیٰ عزیزآبادی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کی جماعت الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرے گی۔

کراچی میں مقیم تجزیہ کار مظہرعباس نے اس نئی پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ’قانونی طور پر پاکستان میں ایم کیو ایم کی سرگرمیوں اور اس کے ہیڈکوارٹر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ نائن زیرو کو قانونی طورپر سیل نہیں کیا گیا لیکن عملی طور پراس کی سرگرمیوں پر غیرعلانیہ پابندی ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جماعت کے لیے بھرپور انداز میں واپسی اور شہر پر راج کرنا آسان نہیں ہوگا جس طرح وہ ماضی میں کرتی تھی۔

مظہر عباس کے مطابق: ’اس کی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو جائیں تو بھی بہت لوگوں کو ڈر رہے گا کہ وہ مشکل میں پڑ سکتے ہیں (پارٹی میں شامل ہونے کے بعد) اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے سیاسی گرمیوں کے دوبارہ آغاز سے کوئی بڑا اثر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت نے الطاف حسین کی تقریر پر پابندی ختم کر دی تو ان کا سیاسی بیانیہ پارٹی کے مختلف دھڑوں کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے جس میں ایم کیو ایم پاکستان بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے لیے تشویش کا سبب ہوگی۔

پارٹی کے بانی الطاف حسین نے 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ قائم کی۔ بعد میں اس کا نام متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا۔ اگرچہ پارٹی پر کوئی قانونی پابندی نہیں لیکن ایم کیو ایم کو اگست 2016 سے اپنی سرگرمیوں پر’غیرعلانیہ پابندی‘کا سامنا ہے۔

اس سے پہلے الطاف حسین نے ٹیلی فون کے ذریعے کے تقریر کی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس میں تشدد کے لیے اکسایا گیا اور اس تقریر کے بعد ہجوم نے کراچی میں پولیس حکام اور ٹیلی ویژن سٹوڈیوز پر حملہ کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پارٹی کے ڈپٹی کنوینر اور الطاف حسین کے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر فاروق ستار ان کئی رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں تقریر کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ رینجرز کی جانب سے رہائی کے بعد فاروق ستار نے الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرلی اور اعلان کیا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم۔پی) بنا رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سنبھالنے کے بعد فاروق ستار کو ایک طرف کر دیا گیا۔

برطانوی پولیس کے مطابق پولیس نے 2019 میں الطاف حسین پر پاکستان میں تشدد کو ہوا دینے پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا۔ انہیں اس سال فروری میں لندن کی ایک عدالت نے بے قصور قرار دیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست