پاکستان کی سیاسی صورتحال میں ایک مسلسل ہلچل ہے۔ ایک جانب وزیراعظم عمران خان نے تین ماہ میں الیکشن کروانے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ دوسری طرف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اور پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب کروانے پر بضد ہے۔
اس صورتحال میں تین ماہ میں انتخابات کروانا چیلنج ہوگا مگر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ تین ماہ میں الیکشن کروانا پڑے تو تیاری مشکل نہیں تاہم سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پتہ چلے گا کہ الیکشن کب ہونا ہے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بقول: ’انتخابات کا انعقاد کروانے میں کوئی مسئلہ نہیں، الیکشن کمیشن کے پاس مکمل مشینری موجود ہے لیکن یہ الیکشن پرانے طریقہ کار سے ہی ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ممکن نہیں کیونکہ نہ تو مشینیں تیار ہوئیں اور نہ ہی اس کے لیے پانچ کھرب روپے میسر ہوں گے۔‘
اپوزیشن جماعتیں کسی بھی وقت انتخاب منعقد ہونے پر مکمل تیاری کا دعوی کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے غیر آئینی اقدامات سے ان کے لیے مہم چلانا بھی آسان بنا دی ہے اور عوام کو خود ہی اپنے خلاف کرلیا ہے۔
دوسری جانب حکومت سمجھتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو ایکسپوز کرکے اپنی مقبولیت میں اضافہ کر لیا ہے اور اب وہ دو تہائی اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔
انتخابی تیاریاں کتنے عرصے میں مکمل ہوسکتی ہیں؟
ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے منگل (پانچ اپریل) کو جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن (تین ماہ) میں انتخاب کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب بھی انتخابات کروانے کا کہا جائے گا انتظامات شروع کر دیے جائیں گے، جس کے لیے مکمل مشینری موجود ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی بھی تردید کی تھی، جس میں الیکشن کمیشن کے ایک افسر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’تین ماہ میں انتخابات کروانا ممکن نہیں۔ کئی مسائل ہیں جو اتنی جلدی حل نہیں ہوسکتے۔‘ اس خبر پر پی ٹی آئی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’الیکشن کمیشن تین سے چھ ماہ میں انتخابات کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ الیکشن کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشینری بھی الیکشن کمیشن کے ماتحت ہوتی ہے اور الیکشن کمیشن کا اپنا نیٹ ورک بھی موجود ہے، لہذا جب بھی الیکشن کروانے پڑیں گے، انتظامات شروع کیے جا سکتے ہیں۔‘
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بار الیکشن کمیشن کمیشن کو خیبرپختونخوا میں فاٹا انضمام کے بعد حلقہ بندیوں اور فہرستوں کی تیاری سمیت عملے کی تربیت کے لیے وقت درکار ہوگا، جس کی وجہ سے چار سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے انتظامات کے متعلق الیکشن کی مدت بڑھانے کے لیے اجازت لی جاسکتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وقت بڑھانے کی ضرورت لازمی پیش آئے۔
کنور دلشاد کے بقول: ’الیکشن کروانے کا کہنا آسان ہے لیکن انعقاد میں بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ پہلے تو موجودہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بار میرے خیال میں 50 ارب روپے فنڈز درکار ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابات کروانے کا سوال ہے تو یہ بالکل ناممکن ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی ای وی ایم کے استعمال کی تجویز مسترد کر دی تھی۔ ابھی تک مشینیں بنانے کا آرڈر بھی نہیں دیا گیا کیونکہ دس لاکھ مشینیں بنوانے کے لیے پانچ کھرب روپے درکار ہوں گے۔‘
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’ویسے بھی دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ناپسندیدہ ہے، اس لیے الیکشن تو پرانے طریقے سے ہی ہوگا۔‘
دوسری جانب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ وزیر اعظم نے اسمبلیاں تحلیل کرکے تین ماہ کی مدت میں انتخابات کرانے کی آئینی اختیارات کے تحت ہدایت دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے انتظامات میں مشکلات کا اظہار کیا جا رہا ہے، جو بلاجواز ہے، لہذا الیکشن کمیشن کو مقررہ مدت یعنی نوے دن میں انتخابات کراانا ہوں گے۔‘
اسی طرح سابق وزیر مملکت فرخ حبیب کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے باقاعدہ تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے اور وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں پارلیمانی بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے تاکہ امیدواروں کی درخواستیں وصول کرکے ناموں کی فہرست بنائی جائے اور بورڈ کی منظوری سے ٹکٹیں جاری کی جاسکیں۔
کیا اپوزیشن جماعتیں بھی الیکشن کے لیے تیار ہیں؟
اس سوال کے جواب میں مسلم لیگ ن کے رہنما کامران مائیکل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم تو کافی عرصے پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت کو چلتا کرکے نئے انتخابات کروائے جائیں، اب جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو شکست کے خوف سے عمران خان نے اسمبلیاں غیر آئینی طور پر توڑ دیں اور تین ماہ میں الیکشن کا اعلان کردیا۔‘
کامران مائیکل کے بقول: ’ابھی معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ اگر سپیکر رولنگ کیس میں غیر آئینی اقدام قراردے کر اسمبلی بحال کی گئی تو پھر الیکشن تین ماہ میں نہیں ہوں گے لیکن اگر پانچ چھ ماہ میں الیکشن ہوتا بھی ہے تو ہماری مکمل تیاری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’موجودہ صورتحال سے اپوزیشن جماعتوں کے لیے الیکشن آسان ہوگیا ہے کیوں کہ عمران خان نے خود ہی عوام کو اپنے خلاف کرلیا ہے۔ پہلے لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور ان کی کارکردگی سے مایوس تھے، اب یہ معاملہ بھی ان کو ایکسپوز کرگیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کامران مائیکل کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے لیے تو پی ٹی آئی اراکین کی لائن لگی ہے۔ ہمارے لیے امیدوار چننا مشکل ہو رہا ہے۔ ٹیمیں تیار ہیں، چاہے ایک ماہ بعد ہی الیکشن کرادیے جائیں۔‘
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے صورتحال کے پیش نظر ایوان کے اندر کردار ادا کرنے کے ساتھ عوام میں بھی بھر پور رابطے رکھے۔ پہلے بلاول بھٹو زرداری نے ملک بھر میں جلسے کیے، مہنگائی کے خلاف ریلیاں نکالیں اور کراچی سے اسلام آباد تک کامیاب لانگ مارچ کیا جس سے ہمارے کارکن فل چارج ہیں۔ جب بھی الیکشن ہوگا پیپلز پارٹی بھرپور مقابلہ کرے گی اور زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن جماعتیں انتخابات کی حکمت عملی تیار کریں گی، الیکشن کب اور کیسے ہونے ہیں، انتخابی اصلاحات ہونی ہیں، شفاف انتخابات کا طریقہ کار طے کرنا ہے، نگران حکومتوں کا قیام ہے، یہ سب سوچ بچار کے بعد مکمل کیا جائے گا۔‘
بقول منظور وٹو: ’ہمارا پہلا مقصد پارلیمان کی آئینی قدر میں اضافہ، آئین کی پاسداری اور آئین شکنی کے اقدام کی روک تھام کے لیے بندوبست کرنا ہے۔ جیسے ہی ہم پارلیمانی معاملات بہتر انداز میں حل کریں گے، اس کے بعد انتخابات میں بھی بھر پور انداز میں حصہ لیں گے۔‘