پشاور ہائی کورٹ میں کالعدم تنظیم کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران ہائی کورٹ نے دونوں فریقوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
مجرم کے بھائی نے پہلی بار ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے بارے میں امید ظاہر کی کہ ’اب ڈاکٹر شکیل کو انصاف ملنے کی توقع پیدا ہو گئی ہے۔‘
فاٹا انضمام کے بعد دیگر کیسوں کی طرح فاٹا ٹربیونل سے پشاور ہائی کورٹ منتقل ہونے والے شکیل آفریدی کیس کی پہلی سماعت جسٹس عبدالشکور اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کی۔
صوبائی حکومت نے فاٹا ٹربیونل میں ڈاکٹر شکیل کی سزا میں کمشنر پشاور کی جانب سے دس سال سزا تخفیف کے خلاف درخواست دائر کی تھی کہ اس کمی کو ختم کیا جائے اور سزا واپس بحال کی جائے جبکہ مجرم کے خاندان نے ڈاکٹر شکیل کو ملنے والی سزا کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فاٹا ٹربیونل کے کیسوں کی ہائی کورٹ منتقلی کے بعد آج کیس کی ابتدائی سماعت ہوئی عدالت نے مجرم کے خاندان اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے ہیں جس کے بعد کیس اگلی سماعت پر دوبارہ سنا جائے گا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ ناصر خان کی عدالت نے 23 مئی 2012 کو کالعدم تنظیم لشکر اسلام کی مالی معاونت کرنے کے الزام میں 33 سال قید اور تین لاکھ 30 ہزار روپے سزا سنائی تھی جس کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست پر کمشنر پشاور نے اس سزا میں دس سال اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی تخفیف کر دی تھی۔
اس کمی کو حکومت نے چیلنج کر کے اس کی بحالی کے لیے درخواست جمع کرائی تھی جبکہ مجرم کے خاندان نے مجموعی سزا کے خلاف ہی فاٹا ٹربیونل سے رجوع کیا تھا۔
مجرم کے وکیل قمر ندیم آفریدی اور بھائی جلیل آفریدی نے میڈیا کو بتایا کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد اس کیس کی ہائیکورٹ میں سماعت سے یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ انہیں انصاف ملے گا اور ایف سی آر کی وجہ سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔
یاد رہے کہ قبائلی علاقوں کی آئینی حیثیت بدلنے کے بعد عام لوگوں کے مقدمات کے ساتھ ساتھ طالبان اور دیگر عسکری تنظیموں کے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات بھی ہائی کورٹ منتقل ہو گئے ہیں۔