وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر منعقد ہونے والا قومی اسمبلی کا آج کا اجلاس اب تک غیر معمولی رہا ہے۔
عمومی طور پر جیسے اجلاس میں کشیدگی ہوتی ہے یا طعنے بازی ہوتی ہے، آج ایسا نہیں تھا۔ چند حکومتی اراکین نے بدتہذیبی کی کوشش کی لیکن حکومتی وزرا نے انہیں روک دیا۔
مجموعی طور پر اجلاس میں قدرے خوشگوار اور مثبت رویہ تھا۔ حکومت اور اپوزیشن اراکین تقریروں کے دوران چٹکلے چھوڑتے رہے لیکن اس میں تلخی نہیں بلکہ مزاح کا تاثر تھا۔
یاد رہے کہ تین اپریل کو قومی اسمبلی اجلاس میں عدم اعتماد ووٹنگ کے عمل کو پذیر ہونے سے پہلے ہی مسترد کر کے اجلاس برخاست کر دیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے آئینی بحران اور سپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس لیا۔ اس پر جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کا نو اپریل کو اجلاس بلانے کا حکم دیا اور اسمبلی کو تین اپریل سپیکر کی رولنگ سے پہلی والی پوزیشن پر بحال کر دیا تھا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے کی صبح ساڑھے 10 بجے جب شروع ہوا تو شہباز شریف کی تقریر کے دوران تحریک انصاف کے اراکین ’چور‘ اور ’چپ کرو‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ مسلسل ڈیسک بجا کر دخل اندازی کی گئی اور تحریک انصاف کی اسما حدید بھی شور کرتی رہیں۔ ایوان میں اتنا شور ہو گیا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی عطااللہ اپنی نشست پر کھڑے ہو کر لقمے دیتے رہے کہ شکریہ میں ’امریکہ اور اپنے لانے والوں کا نام بھی لو۔‘
دوسری جانب اپوزیشن نے شہباز شریف کی تقریر میں سپیکر پر تنقید اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذکر پر ڈیسک بجا کر داد دی۔ سپیکر نے کہا کہ جو عدالت کا حکم ہے اس کی روح کے مطابق اس پر عمل ہو گا اس کے بعد فلور شاہ محمود قریشی کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہم جمہوری انداز سے حالات کا مقابلہ کریں گے اور کوئی آئین شکنی نہیں ہو گی۔
چونتیس منٹ اجلاس جاری رہنے کے بعد سپیکر نے ساڑھے 12 بجے تک وقفہ کر دیا۔ وقفے میں خواجہ سعد رفیق فواد چوہدری کی نشست تک آئے اور شفقت محمود بھی موجود تھے۔ انہوں نے گپ شپ لگائی۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی بھی حکومتی اتحادی بینچوں پر آ کر خوش گپیاں لگاتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وقفے کے دوران اسمبلی کا ماحول کافی خوشگوار تھا۔ اسی دوران وزیراعظم عمران خان کے مشیر بابر اعوان خوشگوار دوستانہ انداز میں ن لیگ کے رہنما خواجہ رفیق سے ملے۔ جبکہ خواجہ آصف اجلاس کے دوران ہاتھ میں تسبیح پڑھتے رہے۔
اجلاس میں وقفے کی طوالت کے باعث سب اکتانا شروع ہو گئے۔ پریس گیلری میں موجود صحافی بھی شدید تھکے ہوئے دکھائی دیے۔ طویل وقفے کے دوران بوریت سے بچنے کے لیے ن لیگ کے رہنما احسن اقبال چہل قدمی کرتے حکومتی بینچوں کی جانب آئے اور شفقت محمود، شوکت ترین اور شبلی فراز سے چند منٹ گپ شپ لگائی۔ کچھ اپوزیشن اراکین نے دو سے زائد گھنٹے کا وقفہ ہونے پر اسمبلی ڈیسک پر ہی نیند پوری کرنا شروع کر دی۔ پاس بیٹھے صحافی نے تبصرہ کیا کہ حکومت ان کو آج تھکا کر عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے گی۔
وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کی رکن اسمبلی اسما حدید نے اپنی نشست پر بیٹھ کر پلے کارڈز بنانا شروع کر دیے جن پر ’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے‘ اور ’ضمیر فروش‘ کے نعرے لکھے۔
ساڑھے تین گھنٹے کے وقفے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو سپیکر اسد قیصر کی بجائے پینل آف چیئر امجد خان نیازی نے صدارت سنبھالی۔ شاہ محمود قریشی نے دھمکی آمیز متنازع خط کا ذکر کر دیا۔ اس دوران شیریں مزاری فواد چوہدری کے کان میں سرگوشیاں کرتی رہیں۔ جبکہ اسی اثنا میں خواجہ سعد رفیق شہباز شریف کی نشست پر آئے اور مشاورت شروع کر دی جس پر پینل آف چیئر منیر نیازی نے مداخلت کی کہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’آج ہم ہیں، کل نہیں ہوں گے‘، تو اپوزیشن کی جانب سے آواز آئی ’انشااللہ‘۔ اس پر شاہ محمود قریشی نے پلٹ کر کہا ’آپ بھی نہیں ہوں گے‘۔ وزیر خارجہ شاہ محمود کی تقریر کے دوران حکومتی دیگر وزرا کی عدم دلچسپی ظاہر ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے گفتگو کرتے رہے۔ اسی دوران اپوزیشن نے نعرے لگائے کہ ووٹنگ کروائیں تو شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گھبرانا نہیں ہے وہ بھی ہو جائے گا۔
شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران ایوان کا ماحول جلسہ گاہ کا منظر پیش کرنے لگ گیا جب انہوں نے عمران خان کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے۔ صحافیوں نے تبصرے کیے کہ شاہ محمود قریشی کے خطاب سے ایک بات کنفرم ہو گئی کہ اگلی اپوزیشن بہت زبردست ہو گی۔ خطاب کے دوران ہنسی اور چٹکلے اپوزیشن کی طرف سے آئے جس کا شاہ محمود قریشی نے ہنسی مزاخ میں جواب دیا۔
بلاول بھٹو کے خطاب کے دوران جب انہوں نے کہا کہ ’قومی پارلیمانی سکیورٹی میٹنگ میں شیریں مزاری موجود تھا‘، تو اس جملے پر حکومتی اراکین کی طرف سے ہوٹنگ ہوئی۔
شیریں مزاری نے ہاتھ کھڑا کر کے احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’بلاول بھٹو نے مجھے مرد بنا دیا ہے، ’تھا‘ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ انہیں مرد اور عورت کی پہچان ہونی چاہیے۔‘ ایوان اس بات پر قہقہوں سے گونج اُٹھا۔
پھر خواجہ سعد رفیق کے خطاب کے دوران تحریک انصاف کے رکن عطااللہ نے مداخلت کی اور گالیاں بھی دیں اس پر حکومتی وزرا اسد عمر اور دیگر نے بھی انہیں بدتہذیب رویے پر خاموش کرانے کی کوشش کی۔ اسد عمر کی تقریر سے پہلے اسد قیصر نے واپس آ کر اپنی نشست سنبھالی۔
آج کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان بھی شریک ہوئیں اور مہمانوں والی گیلری میں بیٹھیں۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آئین کی بالادستی اور پاسداری ہر پاکستانی شہری پر فرض ہے ’چاہے وہ لاڈلا ہی کیوں نہ ہو۔‘
اسمبلی اجلاس میں حکومتی جماعت تحریک انصاف کے 80 کے قریب اراکین ہال میں موجود تھے جن میں وفاقی وزرا اسد عمر، شفقت محمود، شوکت ترین، شیریں مزاری، بابر اعوان، فواد چوہدری اور شاہ محمود قریشی بھی شامل تھے۔ جبکہ اپوزیشن اتحاد میں حکومت کی سابق اتحادی جماعتیں بھی تشریف فرما تھیں۔
نو اپریل کو ہونے والے اجلاس کی سکیورٹی معمول سے زیادہ سخت تھی۔ مارگلہ روڈ پر تین مقامات پر رکاوٹ لگا کر چیک کیا جا رہا تھا اور صرف متعلقہ افراد کو آگے جانے کی اجازت دی جا رہی تھی۔ پارلیمنٹ کے باہر بھی اسلام آباد پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری موجود رہی۔