ایران کی جوہری تنصیبات پر سٹکس نیٹ نامی کمپیوٹر وائرس کے حملے کے بعد سے ایرانی حکومت نے سائبر کارروائیوں اور ڈیجیٹل نگرانی کی صلاحیتوں میں اضافے پر توجہ مرکوز کرلی ہے۔
ویب سائٹ نیشنل انٹرسٹ ڈاٹ او آر جی کے مطابق ایران اتحادی حزب اللہ کو اپنے ترقی یافتہ سائبر پروگرام کے اہم حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔
ایرانی حکومت نے حزب اللہ کو سائبر تربیت اور ٹیکنالوجی فراہم کی ہے اور حال ہی میں لبنان میں مقیم اس گروپ کو اپنا کاؤنٹر انٹیلی جنس سائبر یونٹ بنانے میں مدد کی ہے۔
یہ ایک نئی پیشرفت ہے۔ 2018 میں کارنیگی اینڈومنٹ فار پیس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایران اور حزب اللہ کے درمیان (سائبر) آلات شیئر کیے جانے کا کس قدر کم پیشگی ثبوت ملا ہے۔
تاہم داعش کی خلافت کے خاتمے کے بعد حزب اللہ نے سائبر سپیس میں مشرق وسطیٰ کی سب سے زیادہ جدید اور بااثر دہشت گرد تنظیم کی جگہ لے لی ہے۔
ایران کے پاسداران انقلاب کور کی قدس فورس کی ہدایت کے مطابق حزب اللہ کے نئے سائبر یونٹ کا بنیادی کام لبنانی ریاستی اداروں کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنا اور ایران کے سلامتی کے نظام کا سائبر دفاع مضبوط بنانا ہے۔
ایرانی حمایت یافتہ یہ یونٹ خلیجی ریاستوں میں سٹریٹجک مالیاتی اہداف جیسے کہ گیس اور تیل کی کمپنیوں پر سائبر حملے بھی کرتا ہے۔
اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ یونٹ ممکنہ طور پر بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے ضاحیہ میں قائم ہے اور اس کے پاس وہ کمپیوٹر آلات ہیں, جیسے تہران کی شریف یونیورسٹی کے پاس ہیں۔
ایران طویل عرصے سے محب وطن ہیکرز کو قبول کر رہا ہے۔ یہ اصطلاح سائبر سکیورٹی سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد اس ملک کے ان شہریوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو اپنے وطن کے سٹریٹیجک مفادات کو فروغ دینے کے لیے سائبر اقدامات کرنے میں مصروف ہیں۔
وہ یہ کام اس ملک کی مجموعی سائبر حکمت عملی کے حصے کے طور پر کرتے ہیں۔ ایران۔حزب اللہ سائبر معاہدہ ایران کے سائبر پروگرام کے اگلے قدم کی نشاندہی کرتا ہے کیوں کہ لبنانی پراکسیز تہران میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ انتہائی اہم سائبر بنیادی ڈھانچے کو مشترکہ طور پر استعمال کریں گی۔
حزب اللہ کے سائبر حملے طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ اور مغربی حکومتوں کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوری 2021 میں پتہ چلا کہ حزب اللہ سے منسلک ایک سائبر یونٹ جسے لبنانی سیڈر اے پی ٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، نے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، مصر، سعودی عرب، اردن، فلسطین، متحدہ عرب امارات اور لبنان میں ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں پر ایک سال سے زیادہ عرصے سے حملے شروع کر رکھے ہیں۔
لبنانی سیڈر سائبر ایجنٹس نے حساس ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے کمپنیوں مثال کے طور پر امریکہ میں قائم فرم فرنٹیئر کمیونیکیشنز، کے داخلی نیٹ ورکس کو ہیک کیا۔ اس کارروائی کا مقصد حساس مواد حاصل کرنا تھا۔
لبنانی سیڈر کی امتیازی خصوصیت حسب ضرورت طاقتور ریموٹ ایکسیس ٹول (RAT) استعمال کرنا ہے، جس کی بدولت گروپ کو پردے میں رہنے اور سائبر حملے کے شکار نظام کے اندر طویل عرصے تک موجود رہنے کا موقع فراہم ملتا ہے۔ 2010 میں اوباما انتظامیہ نے حزب اللہ کو ’تکنیکی صلاحیتوں کا حامل دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک دہشت گرد گروپ‘ قرار دیا۔
ایران کی جانب سے حزب اللہ کے سائبر یونٹ کی براہ راست حمایت اس تنظیم کی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جدید صلاحیت کو مزید آگے بڑھائے گی۔
نفسیاتی کارروائیوں کے لیے حزب اللہ کی طویل عرصے سے قائم شہرت بھی سائبر سپیس میں منتقل ہو چکی ہے۔
کووڈ 19 کی وبا کے دوران حزب اللہ نے بھرتیاں کرنے والے غیرملکیوں کو معلومات کی جنگ سے متعلق سائبر تعلیم دی۔
انتہائی ضرورت کے فنڈز حاصل کرنے کی کوشش میں حزب اللہ نے نوجوان عربوں کو آن لائن چینلز کے ذریعے پروپیگنڈا اور غلط معلومات پھیلانے کے فن کی تربیت دی۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ حزب اللہ کی سائبر تربیت کا مقصد ایران کے سٹریٹیجک مفادات کا فروغ اور تہران کے علاقائی دشمنوں بالخصوص اسرائیل اور سعودی عرب کو نقصان پہنچانا ہے۔
حزب اللہ سے سائبر تربیت والے بہت سے لوگوں کا تعلق عراق کے ساتھ ہے۔ وہ عراق کے ایران نواز شدت پسند گروپ کتائب حزب اللہ کی حامی ہیں۔
حزب اللہ اپنی سائبر فورسز کو عراق جیسے غیر مستحکم ممالک میں تہران کے سٹریٹیجک پیغامات کو پھیلاتے ہوئے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے بارے میں خبریں دینے والے امریکی خبر رساں ادارے میڈیا لائن سے وابستہ مائیک ویگن ہائم کے مطابق: ’عراق جیسے ملک میں جہاں حکومت اور میڈیا کے ادارے کمزور ہیں سوشل میڈیا کو خاص طور پر وسعت دی گئی ہے جس سے حزب اللہ کی جانب سے تربیت کی اہمیت اور طلب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘
ایران حزب اللہ کو سائبر پراکسی کے طور پر کیوں استعمال کر رہا ہے؟
پہلی بات یہ ہے کہ تہران اسے پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی کسی حد تک تردید کر سکتا ہے۔
ایران کی جانب سے لبنانی اتحادی کی سائبر فورسز کی تربیت اور ان میں اضافہ کرنے سے غیرملکی طاقتیں حزب اللہ کے سائبر حملے کے بعد ایرانی اہداف کے خلاف جوابی کارروائی نہیں کرسکتیں۔
حزب اللہ کوئی ملک نہیں ہے اس لیے اگر کوئی غیرملکی حکومت جوابی کارروائی کرتی ہے تو اس کے سٹریٹیجک اثاثے کہیں زیادہ محدود ہدف ثابت ہوتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ایران نے حال ہی میں اپنے ’محور مزاحمت‘ کو دوبارہ متحد کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
ایرانی حمایت یافتہ پراکسی قوتوں جیسا کہ حزب اللہ اور حماس اور مشرق وسطیٰ میں مغرب مخالف حکومتوں کا یہ ’پراسرار اتحاد‘ تہران کو مسلم دنیا کے روحانی مرکز کے طور پر دیکھتا ہے۔
سٹکس نیٹ کے تباہ کن حملے کے بعد ایرانی حکومت سمجھتی ہے کہ فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ سائبر صلاحیتوں کو بڑھانا 21 ویں صدی کی جنگ کا لازمی حصہ ہے۔ 2015 میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ ایرانی حکومت نے دو سال میں اپنے سائبر سکیورٹی بجٹ میں 12 سو فیصد اضافہ کیا ہے۔
اگر تہران کا مقصد مشرق وسطیٰ میں علاقائی بالادستی قائم کرنا اور خطے میں امریکی و اسرائیلی اثر و رسوخ کی جگہ لینا ہے تو مشرق وسطیٰ میں ایران نواز تحریکوں اور تنظیموں کی سائبر صلاحیتوں کو بہتر کرنا ایرانی حکومت کا ایسا عمل ہوگا جو اس مقصد کے لیے انتہائی غیرموزوں ہے۔
اگرچہ روس اور چین کے ساتھ مقابلہ امریکی پالیسی سازوں اور سکیورٹی حکام کے لیے اولین ترجیح ہے لیکن حزب اللہ کی طرف سے لاحق سائبر خطرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اہم امریکی بنیادی ڈھانچے پر تباہ کن سائبر حملہ نہ صرف امریکی مالیاتی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ امریکی شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔