’شاید یہ پہلی بار تھا کہ کسی عام شہری کے لیے پروٹوکول کا بندوبست کیا گیا ہو۔ میں اور میری بیٹی جب کولمبو میں پاکستان کے سفارتخانے سے روانہ ہوئے تو ہمارے ساتھ پورا قافلہ تھا۔‘
’جب ہم ریڈیو سیلون پہنچے تو عجیب منظرتھا۔ تمام عملہ منتظر تھا اور وہ پریشان تھے کہ یہ کون ہے جو ایک پروٹوکول کے ساتھ آرہا ہے۔ جب میں اندر چلا گیا تو میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ اس دن میں بہت خوش تھا۔‘
ریڈیو سیلون کی دنیا میں یادگارچوک لورالائی کے نام سے پہچان رکھنے والے نیک محمد کاکڑ کو جنون کی حد تک ریڈیو سننے کا شوق ہے۔ وہ گذشتہ تین دہائیوں سے سری لنکا سے چلنے والے ریڈیو سیلون سنتے آرہے ہیں۔ جس پر بھارتی فلموں کے پرانے گانے نشر ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ شوق بچپن سے ہے۔ جو ابھی تک چل رہا ہے۔ اس میں کمی نہیں آئی اور میں باقاعدگی سے اسے سنتا رہا ہوں۔
نیک محمد کا شوق دوسروں سے اس وجہ سے بھی مختلف ہے کہ وہ ریڈیو سننے کے ساتھ ہراس شخص سے ملاقات بھی کرتے ہیں جس کا نام پہلی بار ریڈیو سیلون پر لیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب بھی کسی نئے شوقین کا نام ریڈیو پر لیا جاتا ہے جو گانوں کی فرمائش کرتا ہے تو سب سے پہلے میں اس کا نمبر تلاش کرتا ہوں پھر اس سے بات کرکے اس کے گھر کا پتہ معلوم کرتا ہوں اور پھر ملاقات کرتا ہوں۔
نیک محمد کاکڑ کے پاس اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں موجود ریڈیو سیلون سننے والوں کے رابطہ نمبرموجود ہیں۔
لورالائی سے کولمبو کا سفر
ریڈیو سیلون سننے اور کمپیئرز کی آوازیں سنتے سنتےنیک محمد کے دل میں یہ خواہش کئی سالوں سے مچلتی رہی کہ وہ کسی طرح سری لنکا جاکر سٹیشن کو دیکھ لیں۔
نیک محمد نے بتایا کہ یہ خواہش تو عرصے سے دل میں تھی لیکن وسائل کی کمی کےباعث وہ اسے دبا دیتے تھے لیکن دوستوں کی محفل میں اس کا اظہار ضرور کرتے۔
پھر وہی ہوا کہ بندہ جس چیزکی طلب کرے وہ اسے جلد یا بدیرمل ہی جاتی ہے۔ ایک دن نیک محمد کو اس کے دفتر کے سربراہ امجد رشید اور سلیم زمان نے بلاکر کہا کہ وہ انہیں سری لنکا بھیجنے کا بندوبست کریں گے۔
نیک محمد نے بتایا کہ ’میرے ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں آپ ریڈیو سیلون سننے کے شوق کا علم ہے۔ آپ کی خواہش ہے کہ سٹیشن کو بھی دیکھ لوں تو ہم آپ کی اس خواہش کو پورا کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب ہم کولمبو پہنچے اور ایئرپورٹ سے نکلنے کے بعد پہلے پاکستان کے سفارتخانےگئے اور وہاں پر ہائی کمشنر سے ملاقات کی۔
نیک محمد کے بقول: ’جب ہم سفارتخانے گئے تو انہوں نے ہماری روانگی کے لیے باقاعدہ پروٹوکول طلب کررکھا تھا۔ جہاں سے ہم سیدھا ریڈیو سیلون کے سٹیشن گئے اور وہاں کے عملے نے بھی حیرت سےدیکھا کہ کون ان پروٹوکول کے ساتھ آرہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں نے ریڈیو سیلون کے اندرقدم رکھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی اوراس کیفیت کا بیان کرنا مشکل ہے۔ شاید یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ تھا۔‘
نیک محمد نے بتایا کہ ’اس کے بعد ریڈیو سیلون کے چیئرمین سماراسنگا نے ہمیں طلب کیا اور ہماری ایک طویل ملاقات ہوئی۔ انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کیا واقعی میں ریڈیو سننے کا شوقین ہوں۔ چیئرمین نے پوچھا کہ کب سن رہے ہیں اور شوق کیسے ہوا؟ انہوں نے سیلون کے کمپیئرز کے نام بھی پوچھے۔‘
چیئرمین ریڈیو سیلون نے نیک محمد کاکڑ سے انٹرویو کے بعد لائیوپروگرام کروایا۔ اس طرح وہ پہلے پاکستانی بن گئے جس کا لائیو پروگرام ریڈیو سیلون سے نشر ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ریڈیو سیلون سننے کا سسلسلہ اب بھی جاری ہے۔ میں جب سے کسی نئے سامع کا نام سنتا ہوں تو پہلے کوشش کرتا ہوں کہ اس کا نمبر کسی طرح حاصل کروں۔ رابطہ ہونے پر جگہ کا معلوم کرکے میں اس سے باقاعدہ ملاقات کرنے جاتا ہوں۔‘
نیک محمد کاکڑ کو سری لنکن حکومت اور ریڈیو سیلون کی جانب سے بہترین سامع اور ایکسلینس ایوارڈ سے نوازا گیا۔