دی انڈپینڈنٹ کو ملنے والے ہوم آفس کے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں ریپ کے تقریباً ایک چوتھائی واقعات میں 16 سال سے کم عمر لڑکیاں شکار ہوئیں۔
ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ موسم بہار تک پانچ سالوں میں پولیس کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے ریپ کے دو لاکھ 71 ہزار کیسز میں سے تقریباً 60 ہزار میں کم عمر لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
لبرل ڈیموکریٹس کی درخواست پر حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے تقریباً 26 ہزار دو سو (دس میں سے ایک) لڑکیوں کی عمر 13 سال سے بھی کم تھی۔
فلاحی اداروں نے کہا کہ انگلینڈ اور ویلز کے اعداد و شمار ’ناقابل قبول‘ تھے اور اس جرم کی کم رپورٹنگ کی وجہ سے حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
سینٹر آف ایکسپرٹیز آن چائلڈ سیکسوئل ابیوز سے وابستہ لیزا میک کرنڈل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ریپ اور جنسی حملوں کے اعداد و شمار کے تجزیے میں اکثر اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا‘ ہے کہ ’ان جنسی جرائم کے متاثرین میں بڑا حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جنسی حملوں کے زیادہ تر جرائم، جن کی رپورٹ شدہ تعداد میں 2020 اور 2021 کے درمیان 20 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے، بچوں کے خلاف تھے جن میں 13 سال سے بھی کم عمر کی لڑکیوں پر جنسی حملے اور 16 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ ریپ شامل ہیں۔
ریپ کرائسس کی چیف ایگزیکٹو جین بٹلر نے کہا: ’یہ ناقابل قبول ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں کم عمر خواتین اور لڑکیوں کو جنسی تشدد کے صدمے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’16 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے خلاف رپورٹ شدہ ریپ کے واقعات کی بڑی شرح اس زن بیزاری(مسوجنی) کو دور کرنے کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتی ہے جو جنسی تشدد کو فروغ دے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مناسب جنسی تعلیم کی بھی ضرورت ہے جو رضامندی اور صحت مندانہ تعلقات کا احاطہ کرتی ہو۔‘
ہاؤس آف کامنز لائبریری کی جانب سے فراہم کردہ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ موسم بہار 2016 اور 2021 کے درمیان پولیس کو رپورٹ ہونے والے ریپ کی شکار 23 فیصد متاثرین 16 سال سے کم عمر کی لڑکیاں تھیں۔
اس دوران 16 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین زیادہ تر ریپ کا شکار ہوئیں جو پولیس کو رپورٹ کی گئیں جو کل تعداد 271,487 میں سے 178,321 کیسز یا 66 فیصد بنتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خواتین کے حقوق کے ادارے ’سولیس‘ سے وابستہ ربیکا گوشاک نے کہا: ’یہ نئی تحقیق پریشان کن اور ناقابل قبول ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ریپ کے واقعات کم رپورٹ ہوتے ہیں اس لیے حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔‘
لبرل ڈیموکریٹ پارٹی میں خواتین اور مساوات کے شعبے کی ترجمان ویرا ہوب ہاؤس نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’آئیے، یہ واضح کر لیں کہ یہ شرمناک اعداد و شمار عورت سے نفرت اور جنس پرستانہ رویوں کا نتیجہ ہیں جو کہ برطانیہ میں بہت زیادہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس رویے کو تبدیل کرنے اور اس ملک میں زن بیزاری کو نفرت انگیز جرم قرار دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ’ایسے جرائم میں تباہ کن حد تک کم سزا کی شرح‘ کا آزادانہ جائزہ لینے کا بھی مطالبہ کیا۔
گذشتہ سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ 2019 اور 2020 کے درمیان ریپ کے جرم میں سزائیں سب سے کم سطح پر ریکارڈ کی گئیں حالانکہ پولیس نے اسی مدت کے دوران 2002 کے بعد ریپ کے واقعات کی دوسری سب سے زیادہ تعداد ریکارڈ کی تھی۔ (اس تاریخ سے پہلے کی رپورٹس کے لیے دفتر برائے قومی شماریات کے اعداد و شمار دستیاب نہیں تھے)۔
دیگر اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ستمبر 2021 تک سال بھر میں ہونے والے ریپ کے واقعات میں صرف 1.3 فیصد کیسز میں ملزمان فرد جرم عائد کی گئی۔
ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ ’ریپ کے الزامات میں اضافہ ہوا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ریپ کے بارے میں اپنے پورے ردعمل کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا: ’ہم جنسی تشدد کے حوالے سے مزید مشیروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، پہلے سے ریکارڈ شدہ شواہد کو تیزی سے (عدالتوں میں) پیش کر رہے ہیں، پولیس اور کراؤن پراسیکیوشن سروس کے درمیان تعاون کو بہتر بنا رہے ہیں اور اگلے تین سالوں میں وکٹم سپورٹ سروسز کے لیے کم از کم 44 کروڑ پاؤنڈ کی فنڈنگ بڑھا رہے ہیں۔‘
© The Independent