صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 33 کی خالی نشست پر آج 17 اپریل کو ضمنی الیکشن ہوا، تاہم عمران خان کی برطرفی، پاکستان تحریک انصاف کے استعفوں اور موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں مبصرین اس انتخاب کو دلچسپ اور اہم قرار دے رہے ہیں۔
ضلع ہنگو میں حلقہ این اے 33 کی یہ نشست پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حاجی خیال زمان کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی، جو 2018 کے عام انتخابات میں فاتح قرار پائے تھے۔
ضمنی الیکشن میں حاجی خیال زمان کے بیٹے ڈاکٹر ندیم خیال اس نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں، جبکہ ان کے مدمقابل جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے مفتی عبیداللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے سید عمر اورکزئی، جبکہ آزاد امیدواروں میں عتیق احمد اور سعید مفکر حصہ لے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر ندیم خیال 17657 ووٹ |
---|
جے یو آئی کے مفتی عبید اللہ 14849 ووٹ |
عوامی نیشنل پارٹی کے سعید عمر 2971 ووٹ |
210 پولنگ سٹیشنز میں سے 176 کے نتائج ۔ ذرائع: حکومت خیبر پختونخوا |
اگرچہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کو جمعیت علمائے اسلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، جو یہاں سے تقریباً ہر انتخاب میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، تاہم 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی اس کی دوسری مضبوط سیاسی حریف جماعت بن گئی ہے۔
ہنگو کے رہائشی اور صحافی فخر کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہنگو میں اس وقت دوبڑی جماعتیں پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار سید عمر اورکزئی بھی ایک متحرک اور ایک موثر نوجوان امیدوار ہیں۔
فخر کاکا خیل کے مطابق: ’اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان ہے۔ ایک جانب اخوند زادہ مفتی عبیداللہ ہیں جو سابق ضلعی ناظم رہ چکے ہیں اور دوسری جانب پی ٹی آئی ہے، جس کے لیڈر نے بیرونی سازش کا کارڈ پھینکا ہے، لہذا جیت آج ان دونوں میں سے کسی ایک کے حصے میں آئے گی۔‘
فخر کے مطابق صرف ایک مہینہ قبل تک مفتی عبیداللہ کے حوالے سے وثوق سے کہا جاسکتا تھا کہ وہ جیتیں گے، لیکن ایک ماہ کے اندر ہی حالات بدل گئے ہیں۔
فائدہ کس کو؟
ہنگو میں آج ہونے والے ضمنی الیکشن کے حوالے سے چند نکات ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے جے یو آئی یا پھر پی ٹی آئی کو فائدہ یا نقصان ہوسکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عوام کو معلوم ہوچکا ہے کہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں رہی ہے، لہذا پی ٹی آئی امیدوار کی جیت انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکے گی، لہذا خیال یہ کیا جارہا ہے کہ اس صورتحال کا تمام فائدہ جے یوآئی ف کو ہوگا، جن کو اپنے مذہبی منشور کی وجہ سے پہلےہی کنزرویٹو طبقے کا سپورٹ حاصل ہے۔
دوسری جانب موجودہ ملکی صورتحال میں جب عمران خان نے عوام کو احتجاج کا کہا تو ان کو ہمدردی کا ووٹ ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، لیکن ایک اہم بات یہ بھی کہ اگر موجودہ حالات میں بھی پی ٹی آئی یہ نشست نہ جیت سکی تو اس سے زمینی حقائق اور جلسوں کی حقیقت آشکار ہوجائے گی۔
ہنگو میں ووٹنگ کی صورت حال
الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا دفتر کے مطابق، ضلع ہنگو میں کُل 210 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے تھے، جب کہ یہاں مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 18 ہزار نوسو بتائی گئی۔
تاہم صحافی فخر کاکاخیل نے بتایا کہ ووٹنگ کے نتیجے میں ’ٹرن آؤٹ آج بہت کم رہا اور جہاں سے عمومی طور پر دو ہزار ووٹ پول ہوتے تھے وہاں دوسو ووٹ بھی نہیں ڈالے گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہنگو میں منجی خیل، کربوغہ شریف اور شمشہ دین کے پولنگ سٹیشن میں خواتین نے ووٹ پول نہیں کیا کیونکہ وہاں علاقائی عمائدین نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نہیں نکلیں گی۔
پاکستان تحریک انصاف کا موقف
ڈاکٹر ندیم خیال جو کہ این اے 33 پر اپنے والد کی جگہ امیدوار ہیں، سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال کیا کہ ایسی صورتحال میں جب وفاق میں ان کی حکومت نہیں رہی ہے اور استعفے دے دیے گئے ہیں تو ان کا جیتنا ایسے حالات میں کیا معنی رکھتا ہے؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح فی الحال الیکشن جیتنا ہے۔
بقول ڈاکٹر ندیم خیال: ’جب الیکشن ہم جیت لیں گے اس کے بعد عمران خان طے کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ الیکشن جیت کر ہم استعفیٰ دیں۔ میں قعطعی طور پر فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ٹرن آؤٹ کم ہونے کی ایک وجہ رمضان اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ عام انتخابات کا ماحول نہیں ہے، جس میں لوگوں کی دلچسپی عروج پر ہوتی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے امیدوار کا مزید کہنا تھا کہ نہ صرف یہ کہ لوگوں کی ہمدردی ان کی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے بلکہ ضلع ہنگو میں تحریک انصاف کے قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین نے ترقیاتی کام بھی بہت کیا ہے۔
موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کی پوزیشن
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے نتیجے میں ان کی برطرفی کے بعد انہوں نے جیسے ہی عوام کو باہر نکلنے اور احتجاج کی کال دی، تب سے ملک میں مظاہروں، جلسوں اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اقتدار کا خاتمہ ہونے کے بعد عمران خان کا پہلا جلسہ پشاور میں منعقد ہوا، جس میں رمضان کے مہینے بھی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اگرچہ پی ڈی ایم اور ان کے حامی اس تعداد کو کم کرکے بتاتے ہیں لیکن صوبے کے اندر غیرجانبدار حلقے اس جلسے کو ’غیرمعمولی‘ قرار دے رہے ہیں۔
ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی نوجوان کارکن طارق آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان تحریک انصاف 2018، 2019 حتی کہ 2020 میں بھی خاموش، ساکت اور جذبے سے خالی ہوچکی تھی، لیکن صرف ایک ماہ کے اندر جو تبدیلی آئی ہے، اس نے انہیں حیران کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یوں لگتا ہے جیسے پورا قبائلی علاقہ پاکستان تحریک انصاف کے حق میں ہے۔ گذشتہ روز باڑہ میں جو احتجاج ہوا قبائلی اضلاع کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاسی احتجاج میں خواتین بھی نکل آئیں۔‘
انہوں نے کہا کہ آج کل ضلع خیبر میں کسی دوسری سیاسی جماعت کا کوئی نام بھی نہیں لے رہا۔
مذکورہ احتجاج کا ذکر ضلع باجوڑ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے بھی اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کیا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگرچہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے انہیں بہت عزت دی ہے لیکن پشاور جلسے کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آئی ہے اور پی ٹی آئی کے لیے ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ عین ممکن ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلیں۔‘