روسی فوج کے ہاتھوں یوکرین میں پکڑے جانے والے دو برطانوی جنگجوؤں نے پیر کو روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر آ کر کہا ہے کہ ان کا تبادلہ اس روس نواز سیاست دان کے ساتھ کیا جائے جو یوکرینی حکام کی تحویل میں ہیں اور انہیں ’تاریکی کا شہزادہ‘ (Prince of darkness) کہا جاتا ہے۔
سرکاری ٹی وی چینل روسیہ 24 پر نشر کی گئی فوٹیج میں شان پنر اور ایڈن ایسلن نے ایک نامعلوم شخص کے اشارے پر الگ الگ بات کی۔ تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ دونوں افراد کتنی آزادی کے ساتھ بات کرسکتے تھے۔
48 سالہ شان پنر سابق رائل انگلین سپاہی یں، جنہیں ماریوپول میں یوکرینی میرینز کے ساتھ لڑتے ہوئے روسی افواج نے پکڑا، جبکہ 28 سالہ ایڈن ایسلن، جن کا تعلق نوٹنگھم شائر سے ہے، نے زیر محاصرہ شہر کا دفاع کرتے ہوئے اس وقت ہتھیار ڈالے جب ان کے پاس کھانا اور اسلحہ ختم ہوگیا تھا۔
ان دونوں نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے کہا کہ وہ یوکرین کی جانب سے گرفتار روس نواز سیاست دان وکتور میدویدچُک کی رہائی کے بدلے میں ان کی وطن واپسی میں مدد کریں۔ واضح رہے کہ دان وکتور میدویدچُک روسی صدر ولادی میر پوتن کے قریبی ساتھی ہیں۔
یوکرین کے خفیہ ادارے ایس بی یو انٹیلی جنس سروس نے پیر کو تقریباً اسی وقت میدویدچُک کی ویڈیو جاری کی اور ان کے بھی تبادلے پر بات کی۔
میدویدچُک نے روسی صدر ولادی میر پوتن اور یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی سے کی گئی اپیل میں یوکرین کے شہر ماریوپول کے محافظوں اور کسی بھی شہری کو وہاں سے جانے کی اجازت دینے کے بدلے میں اپنی رہائی پر بات کی۔
شان پنر اور ایڈن ایسلن دونوں ماریوپول میں یوکرین کی طرف سے لڑے۔ ماریوپول اب تقریباً مکمل طور پر روسی کنٹرول میں ہے۔
روسی سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے نامعلوم شخص کو دیکھا گیا کہ وہ دونوں برطانوی شہریوں کو اپنے موبائل فون پر میدویدچک کی اہلیہ اوکسانا کی ویڈیو دکھا رہے ہیں جس میں وہ اپنے شوہر کے دو برطانوی شہریوں کے ساتھ تبادلے کی اپیل کر رہی ہیں۔
روس کی جانب سے 24 فروری کو فوج یوکرین میں داخل کرنے کے تین دن بعد یوکرین نے کہا تھا کہ میدویدچک گھر پر نظر بندی سے فرار ہو گئے تھے۔
میدویدچک کو مئی 2021 میں گھر پر نظر بند کرکے ان پر غداری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ بعد میں ان پر دہشت گردی میں معاونت کا الزام لگایا گیا۔
روس نواز سیاست دان، جن کا کہنا ہے کہ روسی صدر پوتن ان کی بیٹی کے گاڈ فادر ہیں، انہوں نے کوئی غلط کام کرنے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’میں صورت حال کو سمجھتا ہوں۔‘
شان پنر نے، جو تھکے اور گھبرائے ہوئے نظر آرہے تھے، ویڈیو دکھائے جانے کے بعد کہا: ’میں حکومت سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے وطن واپس بھیج دیا جائے۔ میں اپنی بیوی سے دوبارہ ملنا چاہتا ہوں۔‘
پنر نے اپنی اور ایسلن کی طرف سے وزیراعظم بورس جانسن سے براہ راست اپیل کی۔ انہوں نے کہا: ’میں اپنا اور ایڈن ایسلن کا میدویدچک کے ساتھ تبادلہ چاہتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ میں واقعی اس معاملے میں آپ کی مدد چاہوں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ تھوڑی بہت روسی زبان بولتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔
بعد میں ویڈیو میں نامعلوم شخص کو ایسلن کے ساتھ بات کرتے ہوئے دکھایا گیا جو کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے وہ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جو یورکرین کی انتہائی دائیں بازو کی آزوف بٹالین کا امتیازی نشان ہے۔ ایسلن کے بقول: ’میرا خیال ہے کہ بورس کو وہ بات سننے کی ضرورت ہے جو اوکسانا (میدویدچک کی اہلیہ) نے کی۔ اگر بورس جانسن کو واقعی برطانوی شہریوں کی پروا ہے، جیسا کہ وہ کہتے ہیں تو اس صورت میں وہ مدد کریں گے۔‘ ایسلن بھی گھبرائے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
ایوان نمائندگان کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین ٹوبیاس ایلووڈ کا کہنا کہ قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہے۔ انہوں نے بی بی سی ریڈیو 4 کے پی ایم پروگرام کو بتایا کہ یہ’پس پردہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بیک چینلز آتے ہیں۔‘یہ وہ جگہ ہے جہاں ایجنسیاں ہمارا کام کرتی ہیں۔ روس کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دیے جانے کے باوجود ہم پاس اب بھی سرکاری حکام موجود ہیں۔ اب بھی رابطے ہو رہے ہیں۔ ہمارے پاس اب بھی ایک سفارت خانہ کام کر رہا ہے۔
’یہ وہ جگہ ہے جہاں یہ بات چیت ہونی چاہیے نہ کہ کھلے عام میڈیا میں۔‘
فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں پنر کے خاندان نے وضاحت کی کہ وہ کس طرح یوکرین میں لڑائی میں شامل ہوئےجو’ان کا اپنایا ہوا ملک‘تھا۔
بیان کے مطابق: ’شان برطانوی فوج میں کئی سالوں سے رائل اینگلین رجمنٹ میں خدمات انجام دینے والے محترم فوجی تھے۔ انہوں نے شمالی آئرلینڈ اور بوسنیا میں اقوام متحدہ کے ساتھ کئی دوروں میں خدمات انجام دیں۔
’2018 میں شان نے یوکرین کی فوج میں اپنے سابقہ تجربے اور تربیت کو استعمال کرنے کے لیے یوکرین منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔
شان نے یوکرین کے طرز زندگی سے لطف اٹھایا اور پچھلے چار سالوں میں یوکرین کو اپنا اپنایا ہوا ملک سمجھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی یوکریتی اہلیہ سے ملاقات کی جو ملک کی انسانی ضروریات پر بہت توجہ دیتی ہیں۔
’انہوں نے اپنی یونٹ کے قابل فخر رکن کے طور پر یوکرین میرینز میں ترقی کی۔‘
بیان میں مزید کہا ہے کہ’ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ وہ رضاکار نہیں ہے اور نہ ہی کرایے کے فوجی لیکن یوکرائنی قانون کے مطابق سرکاری طور پر یوکرین کی فوج کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
’ہمارا خاندان اس وقت دفتر خارجہ کے ساتھ مل کر ایڈن اسلن کے خاندان کے ساتھ کام کر رہا ہے جنہیں روسی فوج نے بھی قید میں رکھا ہوا ہے تا کہ جنگی قیدیوں کے جنیوا کنونشن کے مطابق ان کے حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
اس خبر میں خبر رساں ادارے روئٹرز کی معاونت شامل ہے۔
© The Independent