افغانستان کے صدر اشرف غنی وزیراعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ دورے کی تاریخیں مہنیہ پہلےہی طے کر لی گئی تھیں۔ صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے دو روز قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کابل کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اس تناظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے صدر اشرف غنی سے ملاقات میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ افغانستان امن معاہدے کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے عملی اقدامات کی توقع رکھتا ہے۔
صدر اشرف غنی اس سے قبل دسمبر 2015 میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے مختلف واقعات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری رہا اور دونوں کے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار رہے۔
امریکہ کا افغانستان پر اثر ؛ کیا دورہ پاکستان سے پہلے خاص ہدایات دی گئی ہیں؟
سابق وزیر خارجہ حناربانی کھر نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا کردار افغانستان میں ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ جن ممالک میں امریکہ کی موجودگی براہ راست نہیں ہوتی وہاں بھی پس پردہ معاملات چل ہی رہے ہوتے ہیں۔ افغانستان میں تو امریکہ کی فوج موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’لیکن پاکستان کو امریکہ کے کردار سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ سب کا بنیادی مقصد ایک ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور اسی میں سب کا فائدہ ہے۔‘
کیا اسلام آباد سے کابل کے تعلقات کابل – دہلی تعلقات سے زیادہ مضبوط ہوں گے؟
اس سوال کے جواب میں حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے کابل سے تعلقات دہلی کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہونا مشکل ہے، ایسا سوچنا بھی بیوقوفی ہے۔
سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہا کہ راتوں رات کابل کے تعلقات اسلام آباد سے دہلی جتنے مضبوط نہیں ہو سکتے۔ اعتماد بڑھنے میں کچھ وقت لگے گا۔”
سابق سفیر عاقل ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر اشرف غنی کے دورے سے کابل کے تعلقات اسلام آباد سے دہلی کی نسبت مضبوط ہونے کی توقع نہیں ہے۔
صدر غنی کے دورے سے ایک روز قبل شمالی وزیرستان اور لورالائی میں دہشت گردوں کا حملہ:
سابق وزیر خارجہ حنا ربانی نے کہا کہ افغان صدر کی آمد سے قبل دہشت گردی کے واقعات کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا مشترکہ دشمن یہ نہیں چاہتا کہ تعلقات بہتر ہوں۔ جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا افغانستان کی جانب سے الزام تراشیاں کی جا سکتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ پاک افغان تعلقات کی تاریخ ہی الزام تراشی کی ہے، لیکن ہمارا حال اور مستقبل اس تاریخ سے مختلف ہونا چاہیے۔
سفارتی ماہرین صدر غنی کے دورے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
سابق ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ شاہ جمال نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر اشرف غنی کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے دورے سے دوریاں کم ہوتی ہیں نیز پاک افغان تعلقات میں باہمی اعتماد کو بھی فروغ ملے گا۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان پر الزام تراشی کی توقع کی جا سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ صدارتی دوروں میں الزام تراشیاں نہیں ہوتیں بلکہ سارا شیڈول طے شدہ ہوتا ہے۔
سابق سفیر عاقل ندیم نے کہا کہ انہیں صدر اشرف غنی کے دورے سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات کے بعد بھی افغان مہاجرین اور سرحدی معاملات جوں کے توں رہیں گے کیوں کہ افغانستان کے اپنے مفاد ہیں اور پاکستان کے اپنے مفاد۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ملاقات ہو گی تو بدگمانی ختم ہو گی۔
افغان صدر اشرف غنی کی آمد کا شیڈول:
افغان صدر اشرف غنی 27 جون کی صبح ساڑھے 7 بجے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے۔ افغان صدر دورہ پاکستان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر اعظم عمران خان اور صدر پاکستان سے ملاقات کریں گے۔ صدر اشرف غنی اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کے دوران پاک افغان مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوں گے۔ بعد ازاں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی افغان صدر کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے۔ افغان صدر 28 جون کو لاہور جائیں گے۔ لاہور میں افغان صدر گورنر اور وزیر اعلی پنجاب سے ملاقات کریں گے اور جمعہ کی شام لاہور سے واپس افغانستان روانہ ہو جائیں گے۔