صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان کےدیگر شہروں میں چینی باشندوں پر حملوں میں مجید بریگیڈ نامی ایک گروہ کا نام سامنے آرہا ہے اور اسی گروہ نے منگل کو کراچی میں چینی باشندوں کی وین پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اس حملے میں نئی بات خود کش حملہ آور کی جنس ہے۔ اس حملے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر غیر قانونی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی مجید بریگیڈ کا دعوی سامنے آیا ہے کہ یہ ان کی خاتون فدائی شاری بلوچ عرف برمش نے کیا ہے۔
پاکستان کے دیگر شہروں اور بلوچستان میں اس وقت چینی باشندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
ان منصوبوں میں سی پیک کے تحت مختلف منصوبے اور بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندک کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
مجید بریگیڈ کیا ہے؟
یہ 17 مارچ 2010 کا واقعہ ہے کہ نامہ نگار کے مکان سےآدھے گھنٹے کے فاصلے پر کلی شاہوزئی کے قریب بروری روڈ پر رات کو فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں جن کی آوازیں قریب رہنے والے لوگ تمام رات سنتے رہے۔ جبکہ اس روڈ پر فورسز کی بھاری نفری بھی دکھائی دی۔
صبح سکیورٹی فورسز نے دعوی کیا کہ انہوں نے کالعدم بی ایل اے کے ایک اہم رکن مجید کو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کر دیا ہے جس کی تصویر بھی شائع ہوئی جس میں لاش کے سینے پر کلاشنکوف رکھی ہوئی تھی۔
یہ مجید جونیئر تھا۔ اسی روز یعنی 17مارچ 2010 کو ذرائع بلاغ میں ایک خبر جاری ہوئی جس میں اسلم بلوچ نامی شخص نے بی ایل اے کے نئے دھڑے مجید بریگیڈ کے قیام کا اعلان کیا تھا جس کو مجید جونیئر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔
مجید نام کے ایک اور نوجوان نے 2 اگست 1974 کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر اس وقت حملہ کرنے کی کوشش کی جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اس نوجوان کے پاس دیسی ساخت کا بم تھا جو بھٹو تک پہنچنے سے پہلے پھٹ گیا تھا۔ یہ نوجوان مجید سینیئر تھا جس کا چھوٹا بھائی 2010 میں کوئٹہ میں مارا گیا تھا۔
اس کے بعد تنظٰیم کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا اور پھر 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ کے علاقے ارباب کرم خان روڈ پر واقع ایک مکان پر حملہ ہوا جس کے بارے میں اگلے روز خبریں شائع ہوئیں کہ یہ خود کش حملہ تھا۔
یہ حملہ انتہائی شدید تھا اور دو کلومیٹر سے زیادہ علاقے میں اس کی آواز اور شدت کے اثرات محسوس کیے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد علاقہ مکینوں نے بتایا تھا کہ ان کے مکانات میں کوئی بھی شیشے یا کانچ کی چیز ثابت نہیں رہی۔
یہ مکان سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا جسے حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہے ان کے کئی ساتھی اس میں مارے گئے تھے۔
شفیق مینگل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ خضدار اور وڈھ کے علاقے میں ڈیتھ سکواڈ چلاتے تھے جو لوگوں کے اغوا اور قتل میں ملوث تھا لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔
اس کے بعد پھر ایک طویل خاموشی رہی اور مجید بریگیڈ کی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
پھر 11 اگست 2018 کو ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ میں کام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس پر حملہ ہوا۔ یہ بھی خودکش حملہ تھا۔
اس حملے کے حوالے سے مجید بریگیڈ کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ یہ ان کے رکن ریحان اسلم نے کیا تھا جو تنظیم کے سربراہ اسلم بلوچ کے صاحبزادے تھے۔
اس حملے کے بعد 23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا اور اس فدائی حملے کی ذمہ داری بھی اسی گروہ نے قبول کی تھی۔
کراچی حملے کے بعد 25 دسمبر 2018 کو کالعدم بی ایل اے کے سربراہ اور مجید بریگیڈ کے خالق اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔
اسلم بلوچ کے ہلاکت کے حوالے سے کئی بار دعوے کیے جاتے رہے اور اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی متعدد بار نیوز کانفرنسز میں دعویٰ کرتے رہے کہ اسلم بلوچ کو کارروائی میں مار دیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلم بلوچ کے مارے جانےکے بعد بھی مجید بریگیڈ زیرزمین کام کرتا رہا اور اس کا نتیجہ 11 مئی 2019 کو گوادر میں پی سی ہوٹل (پرل کانٹینینٹل ہوٹل) پر حملے کی صورت میں سامنے آیا جو ایک بڑا حملہ تھا اور اس میں ایک محفوظ ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بی ایل اے مجید بریگیڈ کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کے خودکش حملہ آور 24 گھنٹے تک ہوٹل پر قابض رہے جس میں انہوں نے کئی چینی اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔
پھر اس سے اگلے سال 29 جون 2020 کو پاکستان سٹاک ایکسچینج کراچی پر چار خودکش حملہ آوروں نے یلغار کی جو بعد میں فورسز کے جوابی کارروائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔
دا بلوچستان پوسٹ ویب سائٹ کے، جو بلوچستان میں مزاحمتی تنظیموں کے حملوں کے دعوے اور ان کی دیگر سرگرمیوں کی خبریں شائع کرتا ہے، مطابق اس وقت مجید بریگیڈ کی کمان حمل ریحان بلوچ کر رہے تھے۔
وہ ایک طویل عرصے تک گمنام رہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ بلوچی، براہوی، اردو اور انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔
اس گروپ کی طرف سے رواں سال فروری میں نوشکی اور پنجگور میں فرنٹیئر کور کے کیمپوں پر حملے کیے گئے۔ یہ حملے جدید اسلحے اور دیگر آلات کے ساتھ کیے گئے تھے۔
مجید بریگیڈ نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حملہ آور کیمپ کے اندر تک چلے گئے تھے لیکن سکیورٹی فوسز کا کہنا تھا کہ انہیں داخل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔
نوشکی میں حملہ آور جلد مارے گئے تاہم پنجگور میں طویل آپریشن کے بعد فورسز نے حملہ آوروں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس دوران ٹیلی گرام ایپ اور سوشل میڈیا پر حملہ آورں کے آڈیو پیغامات بھی چلتے رہے جس میں وہ کارروائی کے بارے میں اپنے کمانڈر کو صورت حال سے آگاہ کرتے رہے۔
اسلم بلوچ کے بارے میں دا بلوچستان پوسٹ میں ایک شائع مضمون میں بتایا گیا کہ وہ کوئٹہ کے علاقے ٹین ٹاؤن کے رہائشی تھے۔
ان کا تعلق دہوار قبیلے سے تھا۔ وہ نواب خیر بخش مری کے سٹڈی سرکل میں بھی باقاعدہ شرکت کرتے تھے۔
ادھر مجید بریگیڈ کے کمانڈر کی طرف سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ جس میں ایک شخص جس نے چہرہ ڈھانپا ہوا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ان کے حملے واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین یہاں سے نکل جائیں۔ اس مختصر ویڈیو کو کب ریکارڈ کیا گیا یہ واضح نہیں ہوسکا ہے لیکن کچھ لوگوں کے خیال ہے کہ پرانی ہے اور کراچی حملے سے قبل کی ہے۔
فوجی وردی میں کمانڈر اچھی انگریزی زبان میں کہتے ہیں کہ ان کے قائد جنرل اسلم بلوچ نے بھی یہی پیغام دیا تھا۔ ’ہم بھی اسی کو دہراتے ہیں کہ گوادر اور سارا بلوچستان بلوچوں کی ملکیت ہے۔ ’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی سرزمین کی حفاظت کریں۔ ہماری کارروائیاں جاری ہیں۔ ہم اپنے ساحل کی حفاظت کر رہے ہیں۔ چین کو کہتے ہیں کہ وہ ہماری منشا کے بغیر یہاں آیا ہے اور ہماری دشمنوں کی مدد کر رہا ہے۔‘
ویڈیو میں کئی دیگر مسلح افراد کیموفلاج وردی میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ کمانڈر نے مزید کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی ضمانت دیتی ہے کہ سی پیک کامنصوبہ یہاں بری طرح ناکام ہوگا۔
دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار محمد عامر رانا سمجھتے ہیں کہ چین کے باشندوں پر حالیہ حملے کے بعد پاکستان اور اس کی حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
عامر رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ واقعات چیلنجنگ ہیں، جب سی پیک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے تو اس وقت ایسے حملے کے انتہائی منفی اثرات مرتب کریں گے۔‘
انہوں نے ایک خاتون کے خودکش حملہ کرنے کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’یہ خوفناک رجحان ہے۔ دنیا میں بہت سے مقامات پر خواتین ایسے واقعات میں ملوث رہی ہیں اور داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں خواتین کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ تاہم پاکستان میں ایسا بہت کم ہوا ہے۔ اگر بی ایل اے نے یہ کیا ہے تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔‘
عامر رانا نے کہا کہ حالیہ واقعے کے بعد فورسز پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ جب کہ جو بات چیت کے لیے کوششیں کی جا رہی تھیں وہ سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ نئی حکومت کے لیے بھی یہ چیلنج ہے کہ وہ کس طرح اس سے باہر نکلے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ نئی تکنیک اور طریقہ خطرناک ہے۔ جس سے بہت سے نوجوان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ جس کے بعد تشدد کے واقعات میں نوجوان بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جو آگے چل کر ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔‘