بڈھی گھوڑی لال لگام، آپ نے اردو کا یہ محاورہ لغت میں پڑھا نہیں تو سُنا ضرور ہوگا۔ یہ محاورہ خالصتاً اس سوچ کا عکاس ہے جہاں معاشرہ کسی عمر رسیدہ شخص بالخصوص خواتین کو بڑی عمر میں سادگی کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور کر دے، ان پر زبردستی سنجیدگی اور اداسی کا چولا ڈال دیا جائے۔ ظاہر ہے اس محاورے نے خودبخود تو جنم نہیں لیا، قدیم پاک و ہند میں خواتین کے لیے بنائی گئی خود ساختہ رسوم و رواج اس محاورے کا پس منظر ہے۔
عورت نے جہاں چالیس برس کی حد عبور کی وہاں اس کے لیے معاشرے کے خاص سلوک کا آغاز ہو جاتا ہے، بڑی عمر کی عورت پر اونچی ایڑھی کی جوتی، فیشن ایبل کپڑے، بھڑکتا میک اپ، ترشے بال سب برا لگنے لگ جاتا ہے۔ فیشن برانڈز عمر رسیدہ عورتوں کے لیے خاص ہلکے یا بے رنگ کے کپڑے ڈیزائن کرتے ہیں، بہت شدید ضرورت ہو تو بڑھیا خواتین کے لیے بدروحوں والی ہلکے شیڈز کی لپ سٹک بھی ملتی ہیں، سفید بال رنگنا بھی کچھ خاص اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ آس پاس کے لوگ ادھیڑ عمر خواتین سے یہ امید لگاتے ہیں کہ وہ اب پاوں میں سادہ چپل، دھیمے رنگ و پرنٹ کے کپڑے اور چہرہ میک اپ سے عاری رکھیں گی، اور زیورات کا تو سوچنا بھی نہیں۔ ایسی مصنوعی طاری کردہ سادگی کو چیلنج کرتی ہیں چند ایک خواتین۔ ہم سیلوٹ پیش کرتے ہیں ماہ نور بلوچ، ریما، میرا، ریشم اور دیگر کو جو اچھی خاصی عمر کے باوجود آج بھی نوجوان لڑکی کی سی تر و تازہ اور رنگین ہیں، سیاست میں آجائیں تو سینیٹر شیری رحمان کا فیشن سینس سو میں سے سو نمبر لیتا ہے۔
ہمارے یہاں عورتوں کے رشتے اور ان کی عمر کی ایکویشن پر ایسے واہیات فارمولے بنائے ہوئے ہیں کہ ناسا کے ریاضی دان بھی سر کھجلانے لگ جائیں۔ لڑکی جواں سال ہو تو گھر کی بڑی بوڑھی عورتیں لڑکی سے کم از کم دس سال بڑے مرد کو آئیڈیل رشتہ قرار دیتی ہیں، تیس سال سے کم عمر لڑکی پر چالیس سالہ مرد کا رشتہ بہترین ہوتا ہے مگر جہاں لڑکی تیس سال سے بڑی ہوئی تو وہ بڑی نہیں بوڑھی شمار ہونے لگتی ہے، اب چالیس نہیں پچاس برس کے مرد کا رشتہ بھی موزوں سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے رشتوں اور ان کی عمر کی اس راکٹ سائنس کو ٹی وی فنکارہ یاسرہ رضوی نے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنی عمر سے دس سال چھوٹے لڑکے سے شادی کرلی۔ ویسے اچھا ہی کیا۔
برصغیر تقسیم ہوا، پاکستان اور ہندوستان الگ ہوئے مگر ہندو مذہب کی بعض فرسودہ روایات ہماری جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہیں جیسا کہ مرنے والے شوہر کے ساتھ بیوہ کا ستی ہو جانا یعنی میاں کی چتا جلائی تو بیوہ کو بھی آگ میں جھونک دو۔ کسی بے معنی مذہبی لاجک سے جڑی یہ رسم تو ختم ہوئی مگر بیوہ کے سفید لباس والا ڈراما بلکہ سوپ اوپیرا اب بھی جاری ہے، ہمارے یہاں بیوہ کی جیتے جی موت اکثر انہی رویوں کے باعث ہوتی ہے۔ اسلام میں بیوہ کے لیے عدت کا عرصہ احتیاط کے ساتھ گزارنے کا حکم ہے مگر ہمارا معاشرہ چاہتا ہے کہ بیوہ کی عدت کی مدت تاحیات ہو، وہ ساری عمر حسرت کی تصویر بنی رشتے داروں کے رحم و کرم پر رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیوہ تو خیر سے نصیبوں جلی کہلائی جاتی ہے مگر مطلقہ خاتون سے جڑی معاشرے کی امیدیں اور بھی عجیب ہیں، یعنی اگر طلاق مل گئی تو عورت پر لکھ لعنت اور اگر عورت نے خلع لے لی تو ڈبل لعنت۔ ڈھیر ساری معاشرتی لعنتیں وصول کرنے کے بعد اگر طلاق یافتہ عورت دوسری شادی کر لے تو بدکردار، اور اگر شادی نہ کرے تو ساری عمر بدچلنی کا طعنہ ملنے کا خدشہ۔
بیوہ یا مطلقہ عورت جوان اور اکیلی ہو تو جہان بھر سے اس کی مانگ بھرنے کی پپیش کشیں آ ہی جاتی ہیں مگر ذرا عمر رسیدہ، بچوں والی ہو تو سب محنت مزدوری کر کے بچوں کو پالنے اور اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے جڑی بیکار کی رسوم اور معاشرتی طعنوں تشنوں کو یکدم پچھاڑتی اداکارہ انجمن کی شادی ایک مثبت خبر ہے۔
انجمن اس عمر میں بھی دلہن کے روپ میں پیاری لگ رہی ہیں۔ ظاہر ہے میک اوور کا کمال تو ہے ہی مگر دل کی خوشی بھی انجمن اور ان کے میاں لکی علی کے چہروں پر نمایاں ہے۔ ابھی چند سال قبل ہی انجمن کے شوہر ایک واقعے میں جاں بحق ہوئے جس کے بعد انجمن تنہا تھیں۔
میں یہ نہیں مانتی کہ انجمن نے اپنی عمر اور ’لوگ کیا کہیں گے‘ یہ سوچا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کئی بار ان سوالات کے جواب ڈھونڈے ضرور ہوں گے یا کم از کم اپنے ہونے والے شوہر لکی علی سے ان کا ذکر کیا ہوگا۔ مگر انجمن ایک سپر اسٹار ہیں ان کے لیے فیصلہ کرنا آسان تھا سو وہ کر گزریں جس پر دونوں میاں بیوی داد کے مستحق ہیں۔
ہالی وڈ کی طرح ہماری شوبز انڈسٹری میں بھی کئی طلاقیں اور شادیاں معمول کی بات ہے، مگر مغربی شوبز سٹارز کی طرح ہمارے یہاں بڑھاپے میں شادیاں کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ کئی شادیاں اور طلاقیں تو قابل تقلید عمل نہیں ہاں البتہ بزرگی میں تنہا رہنے کے بجائے گھر بسانے کے فیصلے پر ہمیں انجمن لکی علی کو شاباش دینی چاہیے۔ ہمیں اپنے ارد گرد ایسے تنہائی اور ڈپریشن میں گھرے عمر رسیدہ افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو محض معاشرتی دباؤ کے باعث شادی نہیں کر پاتے۔
اگر خواتین کی ڈھلتی عمر، شادی، رشتوں کے مسائل، طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں پر لگنے والے کلنک کے ٹیکے کو بھاڑ میں جھونک کر آگے بڑھا جائے اور خواتین کی ذات و زندگی سے جڑی ہر بات کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے انہیں بھرپور زندگی کا موقع ملے گھریلو ناچاقیوں کے آدھے مسئلے حل ہوجائیں۔ بس ضروری اتنا ہے کہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، اسے زندگی کے دن گن گن کر گزارنے کے بجائے پل پل جینے دیا جائے۔