سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر وزیراعظم محمد شہباز شریف سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر مدینہ پہنچ گئے.
وزیراعظم شہباز شریف کے پہنچنے پر گورنر مدینہ فیصل بن سلمان آل سعود نے اعلیٰ سعودی حکام کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔ شہباز شریف 28 سے 30 اپریل تک سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔
اس دورے پر بلاول بھٹو زرداری، مفتاح اسماعیل، نوبزادہ شاہ زین بگٹی، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف، چوہدری سالک حسین، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور محسن داوڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب گئے ہیں۔
شیڈول کے مطابق پاکستانی وفد کی اسی رات عشائیے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات طے ہے۔
اس کے بعد اگلے دن عمرے کی ادائیگی کی جائے گی اور 30 اپریل کی شام چھ بجے وطن واپسی ہوگی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے کے دوران وزیراعظم سعودی قیادت کے ساتھ ملاقات میں خاص طور پر دو طرفہ اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری سے متعلق تعلقات کو مزید آگے بڑھانے اور سعودی عرب میں پاکستانیوں کی افرادی قوت کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے متعدد علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔
مزید بتایا گیا کہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب سے مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی شراکت داری کو مزید وسعت دینے میں مدد ملے گی۔
دورہ متنازع کیسے بنا؟
اسلام آباد میں دفتر خارجہ اور وزیراعظم آفس سے دو روز قبل عام ہونے والی ایک ابتدائی دستاویز کے مطابق پی آئی اے سے کمرشل پرواز مانگی گئی تھی اور اخراجات کا تخمینہ بھی طلب کیا گیا تھا۔
جو فہرست سامنے آئی تھی اس میں شریف خاندان کے اہل خانہ، ان کے ذاتی ملازم، اس کے علاوہ سرکاری افسران، وزرا، اتحادی جماعتوں کے اراکین کُل ملا کر 84 افراد کا وفد سرکاری خرچ پر سعودی عرب عمرے پر جانے کے لیے وزیراعظم کے ساتھ تیار ہوا۔
اس فہرست پر سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اہل خانہ اور دیگر افراد کو ساتھ لے جانے سے منع کر دیا جبکہ اتحادی اراکین نے بھی سرکاری وفد کے ساتھ عمرے پر جانے سے معذرت کر لی تھی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما مصدق ملک کے مطابق وزیر اعظم کے ہمراہ خارجہ، اطلاعات، خزانہ کے وزرا، سیکریٹری خارجہ و دیگر سرکاری افسران سمیت 13 افراد پر مشتمل اب مختصر وفد سعودی عرب کا دورہ کرے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے وزیراعظم کے دورے پر اٹھنے والے سوالات کے بارے میں کہا کہ شہباز شریف جب وزیر اعلی پنجاب تھے وہ تب بھی بیرون ملک سرکاری دورے پر اپنے ذاتی خرچ سے جاتے تھے اور یہ روایت انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد بھی برقرار رکھی ہے۔
ان کے مطابق شہباز شریف کمرشل فلائٹ سے خود ٹکٹ خرید کر جائیں گے لیکن وزیراعظم آفس کے مطابق اس دورہ سعودی عرب پر وزیراعظم شہباز شریف سمیت تیرہ رکنی سرکاری وفد خصوصی طیارے پر جائے گا۔
دورے سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
سینیئر تجزیہ کار شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تناظر میں یہ دورہ بہت اہم ہے۔ ’میاں شہباز شریف کے لیے سعودی قیادت نئی نہیں ہے نہ سعودی قیادت کے لیے شہباز شریف نئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ گذشتہ حکومت کے ساتھ پہلے سال کے بعد سعودی حکومت کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے جبکہ اب حکومت بدلنے کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم شہباز شریف کو مبارک باد کا فون بھی کیا جو کہ بہت کم ہوتا ہے کہ سعودی عرب اتنی گرمجوشی دکھائے۔
شوکت پراچہ نے کہا کہ ’یہ ایک اچھا موقع ہے کہ پاکستان کے لیے معاشی تعاون کی راہ نکلے۔ سعودی عرب نے تین ارب ڈالرز پاکستان کے پاس ریزرو رکھے ہیں اس کو بڑھا کر پانچ ارب ڈالر کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی جو سالانہ ادائیگی کی جا رہی ہے اس کو تین سالہ کرنے کی تجویز بھی ہے۔
اس کے علاوہ دفاعی تعاون کے حوالے سے بھی معاہدے ایجنڈے میں شامل ہیں۔‘
دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب میں برادرانہ تعلقات قائم ہیں جو باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم، قریبی تعاون اور ایک دوسرے کی حمایت کی روایت کی پاسداری پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں الحرمین الشریفین کے لیے بے پناہ احترام ہے۔
ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم کے سعودی عرب کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی شراکت داری کو مزید تقویت ملے گی۔ ترجمان نے کہا کہ علاقائی اور عالمی فورموں پر قریبی باہمی تعاون سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔
سعودی عرب میں بیس لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں جو دونوں برادر ملکوں کی ترقی، خوشحالی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
کراچی حملے کی مذمت
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے گذشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی میں ایک چینی انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کی شدید مذمت کی تھی۔ ریاض سے جاری ایک بیان میں وزارت نے سعودی عرب کی جانب سے تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعادہ کرتے ہوئے سعودی عرب کی جانب سے ان مجرمانہ کارروائیوں کو مسترد کیا جو بقول اس کے تمام مذہبی اصولوں اور اخلاقی و انسانی اقدار سے متصادم ہیں۔