ڈی این اے پر مبنی تازہ ترین شواہد سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بھارتی پنجاب کے ضلع امرتسر کے قصبے اجنالہ میں ایک کنویں میں پھینکی گئی انسانی باقیات ان 246 نوجوان ہندوستانی فوجیوں کی ہیں جنہیں 1857 کی بغاوت کے دوران انگریزوں نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔
بھارتی اخبار دی انڈین ایکسپریس میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ ان ہلاک کیے گئے فوجیوں کا تعلق دریائے گنگا کے میدانی علاقوں سے تھا، جو 17.2 کروڑ ایکڑ پر مشتمل زرخیز زمین کی پٹی ہے جو موجودہ بھارت کے شمال، پاکستان اور بنگلہ دیش میں واقع ہے۔
جریدے ’فرنٹیئرز ان جینیٹکس‘ میں جمعرات کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں ان افراد کی باقیات کی نشاندہی کی گئی ہے جو برطانوی راج میں ہندوستانی فوج کی 26 ویں مقامی بنگال انفنٹری رجمنٹ کے سپاہیوں کی ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس جگہ کو 1857 کی بغاوت کے دوران کسی ایک واقعہ میں سب سے زیادہ ہلاک کیے گئے افراد کی باقیات قرار دیا ہے۔
پنجاب کے اس قصبے میں پیش آنے والے اس واقعے کا ایک برطانوی اہلکار کی تصنیف کردہ کتاب میں تفصیلی ذکر بھی ملتا ہے۔
1857 میں امرتسر کے اس وقت کے حاضر سروس ڈپٹی کمشنر کی اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح برطانوی افسروں کی جانب سے ہندوستانی فوج کے ہندو اور مسلمان سپاہیوں کو گائے کے گوشت اور خنزیر کی چربی سے گریس شدہ کارتوسوں کے استعمال پر مجبور کیا گیا جس کے ردعمل میں میاں میر چھاؤنی (موجودہ پاکستان کے شہر لاہور) میں تعینات ہندوستانی فوجیوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔
رپورٹ کے مطابق کچھ برطانوی افسران کو قتل کرنے کے بعد چند سو ہندوستانی سپاہی مشرقی پنجاب (موجودہ بھارتی پنجاب) کی طرف فرار ہو گئے لیکن آخر کار انہیں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا اور بعد میں اجنالہ کے قریب بے دردی سے ان کا قتل عام کیا گیا۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں 282 ہندوستانی فوجی مارے گئے تھے۔
دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق 1857 میں اجتماعی قتل ایک انتہائی حساس مسئلہ تھا جس کے باعث سماجی و سیاسی کشیدگی کے جنم لینے کا خطرہ بھی موجود تھا اس لیے متعلقہ برطانوی افسران نے ان لاشوں کو فوری طور پر اجنالہ کے کنویں میں پھینک کر ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا۔
1857 کے اس اجتماعی قتل کے بعد کئی سالوں تک کسی نے اس واقعے پر کبھی زیادہ توجہ نہیں دی حالانکہ یہ 1919 کے جلیانوالہ باغ کے قتل عام جیسے واقعات سے پہلے پیش آیا تھا۔
بعد میں کچھ مورخین نے یہ قیاس کیا کہ اجنالہ کنویں میں موجود یہ باقیات 1947 میں بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے بعد پھوٹنے والے دنگوں کے دوران مارے گئے افراد کی لاشیں تھیں۔
مقامی ماہرین آثار قدیمہ کے ایک شوقیہ گروپ نے کچھ باقیات کو غیر سائنسی طور پر نکالا جس کے بعد 2014 میں مرنے والوں کی اصلیت کا پتہ لگانے میں کچھ دلچسپی پیدا ہوئی۔ اسی سال بھارتی حکومت نے پنجاب یونیورسٹی کے ماہر بشریات جے ایس سہراوت کی سربراہی میں ایک گروپ کو اس معاملے کی سائنسی تحقیق کرنے کا کام سونپا۔
شواہد کیسے جمع ہوئے؟
کنویں سے نو ہزار سے زائد دانتوں کے ساتھ ساتھ جسم کی مختلف ہڈیاں، زیورات اور تمغے ملے۔ تقریباً 9646 دانتوں کے نمونوں میں سے اب تک چار ہزار سے زیادہ کا تجزیہ کیا جا چکا ہے۔
ہڈیاں وافر تعداد میں تھیں مگر 165 سال پرانی ہونے کی وجہ سے حالت اچھی نہیں تھی اس لیے محقیقن نے سائنسی مطالعے کے لیے دانتوں کا مطالعہ کرنے کو ترجیح دی۔
بہتر حالت میں موجود 50 دانتوں میں سے ڈی این اے کو نکالا گیا۔ حیاتیاتی نمونوں سے جینیاتی ماخذ کا تعین کرنے کے لیے مائٹوکونڈریل ڈی این اے (mtDNA) کا تجزیہ کیا گیا، جبکہ 85 دانتوں کے نمونوں کو آکسیجن آئیسوٹوپ تجزیے سے گزارا گیا۔
بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے شعبہ زولوجی کے شریک محقق گیانیشور چوبے کے مطابق ہماری غذا میں شامل اجزا دانتوں کی بیرونی تہہ پر کچھ ذخائر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے اس طرح ملنے والے دانتوں کے نمونوں سے نباتیات اور گوشت والے کھانوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ مطالعے میں پھلیوں اور دالوں جیسی غذا کے آثار ہائے گئے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان ہلاک ہونے والے فوجیوں کا مسکن گنگا کے میدانی علاقے تھے۔
ان باقیات کے بارے میں مانا جاتا تھا کہ یہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب میں بسنے والے لوگوں کی تھیں، تاہم اس تحقیق نے ڈی این اے کی بنیاد پر اسے غلط ثابت کیا۔
دا پرنٹ کے مطابق جے ایس سہراوت نے کہا کہ اس تحقیق کے نتائج تاریخی ثبوتوں سے ملتے ہیں کہ 26ویں نیٹیو بنگال انفنٹرے بٹالین میں مشرقی بنگال، اودیشہ، بہار اور اتر پردیش سے لوگ شامل تھے۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ماہر بشریات جے ایس سہراوت نے کہا: ’ٹریس ایلیمنٹس اور قدیم ڈی این اے کے تجزیہ کی بنیاد پر فوجیوں کی اوسط عمر 33 سال تھی اور ان میں 21 سے 49 سال عمر کے درمیان کے لوگ موجود تھے۔
یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ 246 ہندوستانی سپاہی تھے، ماہرین نے دانتوں کے پیتھالوجی کا تفصیلی تجزیہ بھی کیا۔ دانتوں کے نمونوں کا موازنہ اسی عمر کے جرمن فوجیوں کی باقیات کے موجودہ ڈیٹا سیٹ سے کیا گیا جو دوسری عالمی جنگ کے دوران مارے گئے تھے۔
ماہر بشریات جے ایس سہراوت نے کہا کہ ان کی مجموعی صحت انہیں فوجی ثابت کرتی ہے کیونکہ فوج کا حصہ ہونے کی وجہ سے انہیں حفظان صحت کی سہولیات حاصل ہوں گی۔
اس کے علاوہ انسانی باقیات کے ساتھ ماہرین آثار قدیمہ نے کچھ زیورات، تمغے اور سکے بھی برآمد کیے جن پر ملکہ وکٹوریہ کی شاہی مہر اور 1799، 1806، 1841 اور 1853 سال کندہ تھے۔ یہ غیر حیاتیاتی باقیات فوجیوں کی ملکیت ہوتی تھیں۔
ہڈیوں کے تجزیے سے ہندوستانی فوجیوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کا بھی پتہ چلا ہے۔ 86 درست حالت میں برآمد شدہ کھوپڑیوں میں سے ہر ایک کی بھنوں کے درمیان چوٹ کے نشان موجود تھے۔
سہراوت کے مطابق یہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انہیں قریب سے گولیاں ماری گئیں۔
کھدائی کرنے والوں نے پتھر کی گولیاں بھی برآمد کیں جو عام طور پر 19ویں صدی میں قیدیوں کو مارنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔
ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ایک جیسے پیٹرن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گولی مار کر ہلاک کرنے سے پہلے ہندوستانی سپاہیوں پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا۔
سہراوت نے کہا: ’باقیات کی حالت کو دیکھ کر اب ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ لاشوں کو قبروں میں دفنانے کے بجائے ایک خاص اونچائی سے کنویں میں پھینکا گیا تھا۔‘
بیربل ساہنی انسٹی ٹیوٹ آف پیلیو سائنسز لکھنؤ سے وابستہ اس تحقیق کے سرکردہ محقق نیرج رائے نے کہا ہے کہ ٹیم کی یہ سائنسی تحقیق ہندوستانی تاریخ کو مزید شواہد کی روشنی میں دیکھنے میں مدد فراہم کرے گی۔