حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت عارف علوی، سابق سپیکر اسد قیصر، گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف غداری کے حوالے سے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے معاملے پر مشاورت کی تصدیق کر دی ہے۔
انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں آئین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے پیش نظر مقدمات کے اندراج کی تجویز دی گئی جس کے بعد وزارت قانون اور وزارت داخلہ کے درمیان مقدمات کے اندراج سے متعلق مشاورت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشاورت ابتدائی مراحل میں ہے اور مقدمات بنانے سے متعلق مزید قانونی تجاویز بھی آنا ہیں۔
وزارت داخلہ اور وزارت قانون کی مشاورت کے بعد معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیجا جائے گا۔ کیسز سے متعلق حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’آرٹیکل چھ کے نفاذ کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اس پر مزید بات نہیں کر سکتا نہ ہی کوئی سیاسی بیان دینا چاہتا ہوں۔‘
پی ٹی آئی کیا کہتی ہے؟
تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آرٹیکل چھ کے نفاذ کے بیانات کو حکومت کا خواب اور سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا ہے۔
اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں تمام اقدامات آئین اور قانون کے تحت کیے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل چھ کا نفاذ کوئی عام بات ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ ’حکومت بتائے کہ اس سے قبل کتنے افراد پر آرٹیکل چھ لگا ہے اور کتنوں کو سزا ملی ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اگر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ درج ہوا تو اس کیس کا کیا بنا؟ کیا پرویز مشرف کو سزا ہوئی؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جو اس قسم کے کیسز سے ڈریں، ہم دعاگو ہیں کہ حکومت آرٹیکل چھ کا معاملہ آگے لے کر جائے تاکہ حقائق سامنے آئیں۔
ماہر قانون کیا کہتے ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے تحریک انصاف کے آئینی عہدوں پر بیٹھی شخصیات کے اقدامات کو آئین سے انحراف قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب اپنے آئینی فریضے کو سر انجام نہیں دے رہے اور بارہا عدالتوں نے بھی انہیں آئینی فریضہ یاد دلایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخابات پر اعتراضات مناسب نہیں۔
’گورنر پنجاب کا احکامات نہ ماننا اپنے حلف اور آئینی تقاضے سے غداری ہے۔ صدر مملکت گورنر پنجاب کو نہ ہٹا کر ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں جب کہ وزیر اعظم صدر مملکت کو گورنر ہٹانے سے متعلق مشورہ بھی دے چکے ہیں۔‘
سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا: ’اس وقت بھی گورنر آئین کے خلاف کھڑے ہیں اوراس وقت ایسی صورت حال ہے جس کا آئین سازوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ صدر مملکت اور گورنر جیسے لوگ اپنے آئینی فریضے سر انجام دینے سے انکار کر کے سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’ان پر آرٹیکل چھ کے نفاذ کا سوال جائز ہے جس کا فیصلہ کابینہ کو کرنا ہے۔ آرٹیکل چھ لگانے سے متعلق مشاورت قابل فہم بات ہے جسے آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر کابینہ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آرٹیکل چھ نافذ کرنا ہے تو اس کا فیصلہ بھی عدالت نے کرنا ہے کہ یہ آئین کے خلاف بغاوت ہے یا نہیں۔‘
آرٹیکل چھ کیا ہے؟
آئین پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت کسی کی بھی طرح سے آئین کو توڑنے، اس کی توہین کرنے، معطل کرنے یا عارضی طور پرملتوی کرنے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرنے پر وہ شخص اور اس کی معاونت کرنے والے افراد ریاست سے سنگین غداری کر رہے ہوں گے۔ اس جرم کی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کر رکھی ہے۔
اس کی شق دو اے کے مطابق سنگین غداری کا عمل کسی بھی عدالت کے ذریعے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ سنگین غداری کے مقدمے میں درخواست گزار کوئی عام شخص نہیں بلکہ وفاقی حکومت ہوتی ہے۔
ماضی میں کس کس پر آرٹیکل چھ لگا ہے؟
اس سے پہلے دسمبر 2019 میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے انہیں سنگین غداری کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔
یہ ملک کی تاریخ کا پہلا ایسا فیصلہ ہے جو آرٹیکل چھ کے تحت سنایا گیا۔