وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے دنیا بھر میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کے بارے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں اعدادوشمار کو مسترد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وبا سے پاکستان میں ہونے والی اموات کی سرکاری رپورٹ ’احتیاط سے‘ مرتب کی گئی ہے اور اس میں ’غلطی کا کوئی مارجن 10 ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔‘
ڈبلیو ایچ او نے جمعرات کو جاری اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کرونا وبا کے دوران عام دنوں کے مقابلے میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ بہت سے ممالک کی جانب سے ہلاکتوں کے حوالے سے اعداد و شمار کو بڑے پیمانے پر ’کم رپورٹ‘ کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے 50 فیصد کی نمائندگی کرنے والے 20 ممالک میں جنوری 2020 سے دسمبر 2021 تک باقی دنیا کے مقابلے میں 80 فیصد سے بھی زیادہ اضافی ہلاکتیں ہوئیں۔
عرنب نیوز کے مطابق پاکستان ان 20 ممالک میں سے ایک ہے جہاں ڈبلیو ایچ او نے شرح اموات سرکاری رپورٹ سے آٹھ گنا زیادہ بتائی ہیں۔
عالمی ادارے کے مطابق جن دیگر ممالک نے اعداد و شمار کو کم رپورٹ کیا ان میں برازیل، کولمبیا، مصر، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، ایران، اٹلی، میکسیکو، نائیجیریا، پیرو، فلپائن، پولینڈ، روس، جنوبی افریقہ، برطانیہ، ترکی، یوکرین، اور امریکہ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے عرب نیوز کو بتایا: ’اس حقیقت کے پیش نظر کہ ہم نے انتہائی احتیاط سے، منظم اور غیر مشینی طریقے سے اپنا کووڈ ڈیٹا مرتب کیا ہے، ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار ناقابل فہم ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کرونا وائرس سے سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 30 ہزار 369 ہے جب کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں تقریباً دو لاکھ 60 ہزار افراد اس انفیکشن سے ہلاک ہوئے ہیں۔
وزیر صحت نے کہا: ’اگر ہم غلطی کے مارجن پر غور کریں تو اس میں زیادہ سے زیادہ 10 ہزار اموات کا فرق ہونا چاہیے جب کہ ڈھائی لاکھ بہت بڑا فرق ہے جو کہ مکمل طور پر سمجھ سے باہر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کی مکمل تصدیق کی گئی تھی اور انہیں ہسپتالوں، محلوں کے ساتھ ساتھ قبرستانوں کے ڈیٹا کے ساتھ مرتب کیا گیا تھا اور یہاں تاریخ، وقت اور مقام کی مکمل تفصیلات کے ساتھ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا: ’یہاں رپورٹنگ کا ایک مناسب نظام موجود تھا۔ ڈیٹا میں اتنا بڑا فرق نہیں ہونا چاہیے اس لیے بھی کہ ہم نے وبا کے دوران اموات میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں دیکھا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیگر صحت کے مسائل کی وجہ سے ہونے والی بہت سی اموات کو بھی کووڈ سے متعلقہ اموات کے طور پر شمار کر دیا گیا تھا۔‘
وزارت صحت کے ایک ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرونا کے ڈیٹا کا قبرستانوں کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں اور مقامی صحت کے حکام اور پریکٹیشنرز کے اعداد و شمار سے موازنہ کرکے صحیح طریقے سے آڈٹ کیا گیا ہے۔
ہینڈ آؤٹ میں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے بارے میں کہا گیا کہ ’مفروضے کی بنیاد پر مرتب کیے گئے اعداد و شمار گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔‘
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اموات کی اضافی شرح کا حساب پچھلے سالوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر وبا کے دوران ہونے والی اموات اور اس کی عدم موجودگی میں متوقع تعداد کے درمیان فرق کی بنیاد پر لگایا گیا تھا۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’زیادہ اموات میں براہ راست (متعدی مرض کی وجہ سے) یا بالواسطہ (صحت کے نظام اور معاشرے پر وبا کے اثرات کی وجہ سے) کووڈ سے وابستہ اموات شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کووڈ سے بالواسطہ طور پر منسلک اموات دیگر صحت کے حالات سے منسوب ہیں جن کی وجہ سے لوگ وبا کی روک تھام اور علاج تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر تھے کیونکہ صحت کے نظام پر وبائی امراض کا اضافی بوجھ پڑ گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق متعدد اموات وبا کے دوران ٹل جانے والی اموات سے بھی متاثر ہو سکتی ہیں کیونکہ لاک ڈاؤنز اور پابندیوں کے دوران ٹریفک حادثات یا پیشہ ورانہ زخموں سے نسبتاً کم لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ کرونا سے زیادہ تر اموات (84 فیصد) جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور امریکہ میں ہوئی ہیں اور اس کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو تقریباً 68 فیصد سے زائد اموات عالمی سطح پر صرف 10 ممالک میں ہوئیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق بھارت میں 47 لاکھ افراد کرونا سے ہلاک ہوئے ہیں تاہم پاکستان کی طرح نئی دہلی نے بھی عالمی ادارے صحت کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔