نومبر کے اواخر میں سامنے آنے والی کرونا (کورونا) وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے اور اب تک حکومتی اعداد و شمار کے مطابق چار سو سے زائد کیس ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
حکومت پنجاب کی جانب سے جاری ہونے والی ڈیلی بریف کے مطابق چھ جنوری تک صرف پنجاب میں ہی اومیکرون کے 250 کیس ریکارڈ ہوئے ہیں، جبکہ سندھ حکومت نے 150 سے زائد کے کیسز کی تصدیق کی ہے۔
ملک میں وبا سے نمٹنے کے ذمہ دار ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں کرونا کی پانچویں لہر کے آثار نمایاں ہیں۔ این سی او سی کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں میں ملک میں کرونا کے مزید 1293 نئے کیس اور چھ اموات رپورٹ ہوئیں۔ وبا کے آغاز سے اب تک ملک میں 13 لاکھ سے زائد کووڈ کیس ریکارڈ ہوئے ہیں اور اموات 29 ہزار کے قریب ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا بھی کرونا ٹیسٹ دوسری بار مثبت آچکا ہے۔ اسد عمر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اومیکرون کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اومیکرون کے متاثرین میں اب تک پنجاب کے دو وزرا بھی شامل ہیں۔ وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد خود بھی اومیکرون کی تشخیص کے بعد گھر میں قرنطینہ ہیں جبکہ میاں اسلم اقبال بھی اپنے آپ کو گھر پر ہی قرنطینہ کر چکے ہیں۔
محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان حماد رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں مثبت ٹیسٹس کی شرح 9.2فیصد تک پہنچ گئی ہے، جبکہ لاہور میں چار فیصد، اور ملتان اور اسلام آباد میں دو فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں این سی او سی نے ہدایت جاری کی ہے کہ شرح آٹھ فیصد سے تجاوز کرنے پر پابندیوں کا اطلاق ہوسکتا ہے۔
ترجمان حماد رضا کے بقول پنجاب میں پہلے سے تیاری ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں میں پانچ ہزار بیڈز اور بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ ’جب پہلی لہر آئی اس وقت نیا تجربہ تھا مگر اب مکمل تیار ہیں۔ ٹیسٹ بھی مسلسل جاری ہیں، ویکسین کا عمل بھی موثر انداز میں چلایاجارہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ صوبے میں سمارٹ لاک ڈاؤن پہلے سے جاری ہے اور اب ایس او پیز پر عمل درآمد پر اور بھی زور دے رہے ہیں، جن علاقوں میں شرح زیادہ ہوگی وہاں لاک ڈاؤن ہوگا۔
ان کے مطابق ابھی تک صورت حال قابو میں ہے اور ہر طرح سے مانیٹرنگ کا عمل بھی جاری ہے۔ ’حالات خراب ہوئے تو ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وسائل موجود ہیں اور اب ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا ہونے سے نجی ہسپتالوں کے بیڈ بھی دستیاب ہیں۔‘
اسی طرح حکومت سندھ بھی صوبے میں کرونا وبا کی شرح بڑھنے کے باعث پابندیاں سخت کرنے پر غور کر رہی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق گذشتہ روز وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا کہ اب تک صوبے میں اومیکرون کے 170 کیس ریکارڈ ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی لاک ڈاؤن نہیں لگایا جا رہا مگر صورت حال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور اگر کیسز میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا تو لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے۔
حکومتی اعداوشمار کے مطابق کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں مثبت کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سردیوں کی چھٹیوں کے بعد ملک بھر میں سکول بھی دوبارہ کھل چکے ہیں جس سے انفیکشن کے پھیلنے کا خدشہ بھی ہے۔
این سی او سی شہریوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ ویکسین لگوائیں اور یکم جنوری سے 30 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے ویکسین کی بوسٹر ڈوز شروع ہو چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اومیکرون سے انفیکشن کم ہوتا ہے مگر اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈینام گیبری ایسس نے ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ اومیکرون کے 80 فیصد مریض ایسے ہیں جنہیں ویکسین نہیں لگی ہے اور ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔