صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلی مرتبہ نہ صرف جینوم سیکوئنسنگ ٹیکنالوجی لیبارٹری قائم کی گئی ہے بلکہ اس کی مدد سے پانچ جنوری کو طبی ماہرین خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پہلے پانچ کیسز کی تشخیص کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ لیبارٹری جس کو ’جینوم لیب‘ کا نام دیا گیا ہے، پشاور کی خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری میں قائم کی گئی ہے۔
یہاں تجربہ کار ماہرین کی زیر نگرانی صوبے بھر کے ہسپتالوں سے بھجوائے گئے پی سی آر نمونوں میں کرونا وائرس کی الفا، ڈیلٹا، اومیکرون اور دیگر اقسام کی تشخیص کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اس سہولت کے حصول سے قبل خیبر پختونخوا کا انحصار قومی ادارہ صحت این آئی ایچ پر تھا، جس کی وجہ سے نہ صرف اس ادارے پر کام کا بوجھ زیادہ تھا بلکہ خیبر پختونخوا کو ٹیسٹ نتائج بھی تاخیر سے مل رہے تھے۔
کے ایم یو میں پبلک ہیلتھ ریفرنس لیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر آصف علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ’شعبہ طب کے مطابق بیماریوں کی تشخیص کے لیے کسی ٹیسٹ کا نتیجہ جلد سے جلد فراہم کرنا چاہیے۔ تاہم اس طبی فلسفے کو عملی جامہ پہننانا مشکل تھا کیونکہ این آئی ایچ پر پورے خیبر پختونخوا کا انحصار تھا۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ آیا خیبر پختونخوا میں اومیکرون کی پانچ جنوری تک تشخیص نہ ہونے کی وجہ کہیں جینوم سیکوئنسنگ کی سہولت کا میسر نہ ہونا تو نہیں تھا؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’نہیں ایسا نہیں ہے۔ جینوم لیب کو فعال کرنے سے قبل ہمیں موصول ہونے والےتمام نمونے ہم این آئی ایچ بھجواتے تھے، لہٰذا دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یا تو یہ وائرس سرے سے یہاں موجود نہیں تھا اور یا جو نمونے ہمیں موصول ہو رہے تھے، اتفاقاً صرف انہی میں اومیکرون نہیں تھا، کیونکہ ظاہر ہے ہم تمام آبادی کے نمونے تو نہیں لیتے۔‘
ڈاکٹر آصف علی نے بتایا: ’جینوم سیکوئنسنگ ٹیکنالوجی پاکستان کے بعض دیگر شہروں میں بھی موجود ہے جو اب خیبر پختونخوا کو بھی صوبائی محکمہ صحت کے تعاون سے حاصل ہو گئی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’پبلک ہیلتھ ریفرنس لیب کرونا کے آغاز سے ہی فعال ہو گئی تھی، اور اب تک کرونا وائرس کے 12 لاکھ ٹیسٹ اس لیب میں ہو چکے ہیں۔ جب اومیکرون آیا تو ہم نے صوبے کی تمام لیبارٹریوں کو تمام مثبت ٹیسٹ ہمیں بھجوانے کا کہا۔ چونکہ کے ایم یو ریفرنس لیب پاکستان کی بڑی لیبارٹریوں میں سے ایک ہے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جینوم سیکوئنسنگ کی سہولت بھی یہاں ہونی چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر آصف کے مطابق کے ایم یو پبلک ہیلتھ ریفرنس لیب نے صوبائی محکمہ صحت کے مالی تعاون سے آٹھ ماہ قبل یورپ سے اس جدید ٹیکنالوجی کو درآمد کیا اور اس کو چلانے کے لیے بشمول ان کے کُل آٹھ ماہرین نے اعلیٰ سطح کی تربیت حاصل کی۔
ان کا کہنا تھا: ’جینوم لیب کا تمام عملہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہے اور سب نے مختلف مغربی ممالک سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ جینوم سیکوئنسنگ انتہائی مہارت کا کام ہے اور یہ ایسی سہولت نہیں جس کو آپ صوبے کے ہر ہسپتال اور لیب میں لگا سکیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’یہ ایک انتہائی مہنگی مشینری ہے جس کو چلانے پر بھی بہت خرچہ آتا ہے۔ اب اگر وائرس کی مزید نئی اقسام آئیں تو ان کی تشخیص بھی اس لیب میں ہو سکے گی۔‘
جینوم سیکوئنسنگ ہے کیا؟
شعبہ طب کے مطابق جینوم دراصل دو الفاظ ’جینز‘ اور ’کروموسوم‘ سے مل کر بنا ہے جو ایک خلیے میں موجود تمام جینز پر مشتمل سیٹ کو کہتے ہیں۔ گویا آپ کے جسم میں جتنا ڈی این اے ہے، اس کا مجموعہ جینوم کہلاتا ہے۔
سیکوئنسنگ کا لفظ ’سیکوئنس‘ (sequence) سے بنا ہے اور اس کا مطلب چیزوں کو ترتیب دینا ہے۔ ڈی این اے کے تناظر میں سیکوئنسنگ سے مراد ڈی این اے کو ایک خاص طریقۂ کار سے گزار کر اس کی ترتیب معلوم کر لی جاتی ہے۔ چونکہ ہر جاندار کے ڈی این اے (یا کرونا وائرس کی صورت میں آر این اے) کی ترتیب مختلف اور منفرد ہوتی ہے اس لیے جینوم سیکوئنسنگ کی مدد سے اس کی شناخت کر لی جاتی ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے کسی لائبریری میں اردو زبان کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں اور ہم اردو کے 35 حروفِ تہجی کی مدد سے ان تمام کتابوں کو شناخت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جینیاتی مواد کے اپنے حروف تہجی ہوتے ہیں جنہیں جینوم سیکوئنسنگ کی مدد سے ’پڑھ‘ کر یہ شناخت کی جا سکتی ہے کہ مواد کس جاندار سے تعلق رکھتا ہے اور اگر وہ وائرس ہے تو اس وائرس کی کون سی قسم ہے، کیوں کہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ہر قسم کے جینوم کی ترتیب مختلف ہوتی ہے۔