’چند ہفتے قبل ہمیں ترک پولیس نے روكا لیکن جب انہیں ہمارے پاكستانی ہونے كا علم ہوا تو ان میں سے ایک اہلكار نے كہا اركاداش( (arkadaşیعنی ’دوست‘، اور ہمیں جانے دیا، لیكن اب بہت سختی ہے اور پاكستانیوں كو جگہ جگہ روک كر چیک كیا جاتا ہے۔‘
یہ كہنا تھا تركی كے شہر استنبول میں مقیم پاكستانی شہری اسد علی زیدی كا، جنہوں نے ترک حكام كے رویے میں تبدیلی كی ایک وجہ اپریل میں بعض پاكستانیوں كی جانب سے مقامی خواتین كی ویڈیوز سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر اپ لوڈ كرنے كو قرار دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو كے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو میں اسد نے كہا كہ ان ویڈیوز كے باعث سوشل میڈیا پر پاكستانیوں كے خلاف بہت بڑی مہم شروع ہوئی جس كی وجہ سے وہاں كی حكومت نے بھی غیرملكیوں خصوصاً پاكستانی شہریوں كے خلاف كچھ سخت اقدامات اٹھائے۔
استنبول میں ہی مقیم ایک اور پاكستانی شہری عدیل علی نے یوٹیوب پر وی لاگ میں كہا: ’تركی میں اب حالات پہلے جیسے نہیں اور اس میں پاكستان سے آنے والوں كا بھی قصور ہے۔ بعض لوگوں كی حركتوں كی وجہ سے اچھے لوگوں كو بھی غیرضروری مشكلات كا سامنا كرنا پڑ رہا ہے۔'
تركی میں گذشتہ چار سال سے مقیم اسد کے مطابق انہوں نے ’عام ترک شہریوں كی اكثریت كے رویے میں تبدیلی نہیں دیكھی۔
’وہ اسی طرح خوش اخلاقی سے ملتے ہیں لیكن حكومتی اہلكاروں كا غیرملكیوں كے ساتھ سلوک خراب ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے كہا كہ چند ہفتے قبل جب وہ ایک دوسرے شہر سے استنبول کا سفر كر رہے تھے تو پولیس نے بس میں سوار تمام مسافروں كو اتار كر تلاشی لی اور اس میں كافی وقت صرف كیا۔
’اس كی واحد وجہ یہ تھی كہ بس میں غیرملكیوں كی بڑی تعداد سفر كر رہی تھی جن میں ہم كچھ پاكستانی بھی موجود تھے۔‘
تاہم انہوں نے كہا كہ سوشل میڈیا پر سرگرم ترک باشندے پاكستانیوں كے لیے ناپسندیدگی كا اظہار كھلے عام كر رہے ہیں اور اس كی وجہ وہی ویڈیوز ہیں۔
انڈپینڈنٹ تركش كی ایک رپورٹ كے مطابق ترک حكام نے جمعرات كو استنبول كی استقلال سٹریٹ اور اس كے اردگرد كے علاقوں سے غیرقانونی طور پر مقیم 120 تارکین وطن كو گرفتار كیا۔
Türkiye’ye kaçak yollarla giren ve yasal kalış hakkı bulunmayan 120 göçmen, İstiklal Caddesi ve çevresinde yakalanarak geri gönderme merkezine sevk edildihttps://t.co/gF4AONEZp1 pic.twitter.com/kp7PMERkSq
— Independent Turkish (@TurkishIndy) May 4, 2022
اسد كے خیال تھا كہ گرفتار شدگان میں زیادہ تعداد پاكستانی باشندوں كی ہو سكتی ہے۔ ترک حکام نے تاہم ان غیرملکیوں کی شناخت یا قومیت نہیں ظاہر کی۔
انہوں نے كہا كہ ماضی میں غیرقانونی تاركین وطن كو گرفتاری كی صورت میں مخصوص مراكز میں ركھا جاتا تھا لیكن اب انہیں فوراً ملک بدر كر دیا جاتا ہے۔
پاکستانیوں کے خلاف چلی ہوا کا اثر اتنا ہوا کہ ترکی کی جانب سے پاکستانیوں کے لیے ویزا پالیسی میں سختی کی افواہیں بھی گردش کرنے لگیں۔
اس پر تركی كے دارالحكومت انقرہ میں پاکستانی سفارت خانے کو ٹوئٹر پر بیان دینا پڑا کہ ’ترکی نے پاکستانی شہریوں کے لیے مخصوص ویزے اور رہائشی اجازت نامے جاری کرنے کی اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ سفارت خانہ تمام معاملات پر ترک حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔‘
اس سلسلے میں پاكستانی سفارت خانے كا مزید موقف جاننے كے لیے ای میل بھیجی گئی لیكن خبر پوسٹ ہونے تک جواب موصول نہیں ہوا۔
ویڈیوز اور ان پر ردعمل
اپریل كے اوائل میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تركی كی ایسی ویڈیوز دیكھنے كو ملیں، جن میں كیمروں كا مركز ہدف خواتین تھیں۔
ان ویڈیوز میں ایسی خواتین كو دكھایا گیا جنہوں نے چست اور مختصر لباس زیب تن كر ركھے تھے جبكہ ایک ویڈیو میں فلم بنانے والا کافی فاصلے تک ایک لڑكی كا تعاقب كرتا رہا۔
ایک اور ویڈیو میں سمندر كنارے نیكرز پہنے نوجوان لڑكوں كو بھی دیكھا جا سكتا ہے۔ یہ ویڈیوز یوٹیوب اور فیس بک وغیرہ پر شیئر ہوئیں۔
ان ویڈیوز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں نظر آنے والی خواتین و حضرات کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں فلمایا جا رہا ہے۔
اسد کا، جو خود بھی یوٹیوب وی لاگر ہیں، كہنا تھا كہ ایسی ویڈیوز سینكڑوں کی تعداد میں کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر موجود تھیں لیکن ان پر ترک عوام کا ردعمل اپریل میں دیكھنے كو آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ ردعمل خصوصاً ٹوئٹر پر بہت شدت سے ظاہر ہوا، اور اس میں ترک باشندوں كی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔‘
اپریل كے دوسرے ہفتے میں استنبول میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے پاكستان مخالف جذبات كو مزید ہوا ملی۔
استنبول میں مقیم پاكستانی اور افغان تاركین وطن كے گروہ نے چار نیپالی سیاحوں كو تاوان كی غرض سے اغوا كیا، تاہم ترک پولیس نے ایک آپریشن كے نتیجے میں اغوا شدگان كو بازیاب كروا لیا۔
بعد ازاں ترک حكام نے ایک ویڈیو جاری كی جس میں گرفتار پاكستانی اور افغان اغوا كاروں كو دكھایا گیا۔ ترک سوشل میڈیا پر ’پاکستانی پرورٹس‘ اور ’پاکستانی گیٹ آؤٹ‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ بھی ہوئے۔
اسد كے خیال میں اس واقعے نے جلتی پر تیل كا کام كیا۔ اپریل كے وسط میں ٹوئٹر پر پاكستان مخالف ٹرینڈز شروع ہوئے جن میں صارفین كی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔
ایک ٹوئٹر صارف آئلہ گیدک نے لکھا: ’ترکی میں پاکستانی مردوں کو بلا اجازت خواتین کی ویڈیوز بنا کر انہیں ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کرتے دیکھا گیا۔ پاکستان کو شرم آنی چاہیے۔‘
@mansuryavas06@bulent_arinc
— AiylaGedik (@GedikAiyla) April 28, 2022
In Turkey, Pakistani men were seen taping women without their consent and putting these videos on social media like TikTok and Instagram. Shame on Pakistan! #GetOutPakistanis #UnsafeTurkishWomen pic.twitter.com/ugk5uiufVp
اس معاملے پر ترک حکومت کا موقف معلوم کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں ترک سفارت خانے سے رابطہ کیا مگر تین دن سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود کوئی جواب یا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
ترکی دو وجوہات کی وجہ سے پاکستانیوں میں کافی مقبول ہےء ایک سیاحت اور دوسری غیرقانونی تارکین وطن۔ حکام کے مطابق دو لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے گذشتہ برس ترکی کا دورہ کیا ان میں طلبہ اور کاروباری طبقہ بھی شامل ہے۔