ڈرامے کے عین آغاز میں جس طرف ہم نے اشارہ کیا تھا کہانی انہیں سب راہوں پہ گامزن اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے, کچھ بھی نہیں بدلا۔
آج ٹوئٹر پہ بھی کچھ پوسٹ ڈراما ختم ہونے کا شکر ادا کرتی دکھائی دیں، ہونا چاہیے تھا کیوں کہ زمین ابھی بیج کے لیے تیار نہیں تھی۔
ہم یونیفارم سے نکل کر کہانی اور سماجی رویوں پہ بات کرتے ہیں تو یہ موجودہ دور کا الیکٹرانک و ڈرامائی بہشتی زیور لگتا ہے۔ جس طرح کا خوفناک منظرنامہ ہم نے سسرالی میدان جنگ کا سن رکھا ہے یہ ڈراما اس میں رہنے اور مقابلہ کرنے کے لیے بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے لہذا اگر آپ کی شادی ہونے والی ہے تو ضرور دیکھیے۔
ہمیں تو خیر اس کا کوئی تجربہ نہیں اس لیے بات کرنا آسان ہے لہذا ہم آسانی سے کر رہے ہیں۔
آپ جس شے سے خوف زدہ ہیں آپ کو اسی سے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے یہ سب سے اہم درس ملتا ہے۔ جو کیڈٹ جس فوبیا میں مبتلا تھی اس کے اندر سے تربیت نے سب سے پہلے وہ خوف نکالا ہے۔ زندگی میں بھی بس اسی خوف پہ قابو پانا ہوتا ہے راہیں بننے لگ جاتی ہیں۔
کاش زندگی بھی ایسے ڈراموں کی طرح ہنسی خوشی والے واقعات پہ ختم ہو سکتی۔
خواہش ہے کہ ڈراما دیکھ کر فوج میں جانے کے کسی خواب میں، کسی لڑکی کو غیرت کے نام پہ قتل نہیں کیا جائے گا۔
کیوں کہ بنیادی طور پہ ایک بات تو سمجھ آتی ہے ملک کی آبادی کا نصف حصہ خواتین ہیں اور فوج میں بہت ہی کم ہیں لہذا ان کو اپنا 50 فیصد نہ سہی 20 فیصد تو دینا چاہیے اس سے ’یہ تو ہوگا‘ فینٹسی میں چند فیصد لڑکیوں کا ہی سہی بھلا تو ہوگا۔
اس کے بعد جو ہو گا دیکھا جائے گا تب ڈراما بہت یاد آئے گا۔ تب تک پی ایم اے کو آپ پہ اور آپ کو پی ایم اے پہ فخر ہو چکا ہوگا۔
کہانی کے ادبی جائزے کے طور پہ دیکھا جائے تو ہمیں مشکلات میں جینے کا نام زندگی ملتا ہے، نفی ذات کو خیرِ انسان میں وسعت ملتی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ یوں لگتا ہے وردی کے بغیر عورت کی کوئی اہمیت ہی نہیں، وردی کے بنا وہ زندگی کی جنگ لڑنا سیکھ ہی نہیں سکتی، کہانی کا توازن آغاز سے ہی تقابل و برتری پہ مبنی رہا۔
وردی والی خواتین کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، اس کو ایک پیشے کی طرح نہیں ایک طاقت کی طرح پیش کیا گیا ہے لیکن پیش کرنے والے یہ بھول گئے تھے شاید جب یہ خواتین صنف آہن بن رہیں تھیں اس سے بہت پہلے سوسائٹی میں ایک خاتون محترمہ بےنظیر بھٹو وزیر اعظم رہ چکی تھیں۔
کامران شفع محترمہ بےنظیر کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
جنرل حمید گل نے بےنظیر کا تمسخر اڑانے کے لیے پوچھا وزیراعظم صاحبہ کشمیر کے بارے آپ کی پالیسی کیا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حمید گل آپس ہنستے اور آنکھوں سے اشارہ بھی کرتے رہے جب کہ بےنظیر خاموشی سے نوٹس لیتی رہیں۔
پہلے پہل تو صاحبزادہ یعقوب (وزیر خارجہ) کی ذمہ داری تھی کہ وہ جواب دیتے لیکن وہ خاموش رہے اور پھر کہا چلیں کھانا کھاتے ہیں، بےنظیر نے کہا نہیں جنرلز مجھے جواب دینے دیں۔
بے نظیر بھٹو ڈیسک پر آئیں اور کہا: ’جنرلز کل ہی کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ کا پلان بناؤ۔ میرے پاس لاؤ بطور وزیراعظم میں آپ کی پشت پر کھڑی ہوں گی۔‘
(اس وقت تازہ تازہ پاکستان کی فوج جلال آباد میں جنگ ہار کر آئی تھی)۔
لہذا صرف وردی ہی عورت کو وقار نہیں دیتی، آپ جہاں بھی ہیں جس شعبے میں بھی ہیں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔
ڈرامے میں بار بار جو مرد سے مقابلے اور برابری کی بات ہو رہی ہے، عام عورت اور ملٹری کی عورت کا تقابل ہوا ہے، یہ سراسر ذہنی انتشار کی صورت ہے ظاہر ہے جس شے کو ہم گلیمر دیں گے اس میں بےسکونی ہوگی۔
ہم سب انسان مرد وعورت اپنی انگلیوں کے نقشوں کی طرح منفرد ہیں اور حسن اپنی انفرادیت کے ساتھ جچتا ہے ورنہ انسان بھی کسی رپلیکا کی طرح ہوتا ہے جو کسی اور کی شناخت میں چھپا اپنا وقت گمان میں گزار رہا ہوتا ہے۔
چینلز اور فلم والے فوجی خواتین پہ تو ڈرامے بنا سکتے ہیں ایک لڑکی کو وزیراعظم بننے کا خواب نہیں دے سکتے آخر کیوں؟
یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔
آپ سب خواتین جہاں بھی ہیں جو بھی کر رہی ہیں صنف اعلیٰ ہیں، صنف آہن ہیں کوئی کام کوئی پیشہ کم تر و برتر نہیں ہوتا نہ ہی کسی گھر رہنے والی خاتون کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ وہ کسی سے کم تر ہے۔
ڈراما تو ڈراما ہوتا ہے کہیں نہ کہیں آپ کا کیتھارسس کرتا ہے اور گزر جاتا ہے زندگی سب سے حسین کھیل خود ہے۔
آئیں اس کو اپنی پوری شناخت، انفرادیت اور شان کے ساتھ جیتے ہیں اور یہ سمجھ کر جیتے ہیں کہ عورت اپنی ذات میں آپ ایک طاقتور ہستی ہے۔ اس کے ارادوں کو کوئی تسخیر نہیں کرسکتا۔
اس کے وقار کوکوئی کم نہیں کر سکتا، عورت و مرد ہمیشہ ساتھ مل کر دنیا بناتے ہیں انہیں ایک دوسرے کو ہرانا نہیں جیتنا ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔