’بونگ بونگ‘ کے نام سے مشہور فرڈینینڈ مارکوس جونیئر فلپائن کے اگلے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے تیار ہیں جن کی انتخابی فتح کو تقریباً چار دہائیوں کے بعد ایک سیاسی خاندان کی شاندار واپسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پیر کے انتخابات کے بعد رات بھر ووٹوں کی 96 فیصد سے زیادہ گنتی کے ساتھ مارکوس نے ابتدائی نتائج کے مطابق تین کروڑ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں جو ان کی قریبی حریف اور سبکدوش ہونے والی نائب صدر لینی روبریڈو سے دوگنا زیادہ ہیں۔
اگرچہ تمام ووٹوں کی گنتی کے بعد ہی حتمی نتائج کا باضابطہ طور پر اعلان مئی کے آخر میں کیا جائے گا لیکن آنجہانی آمر فرڈینینڈ مارکوس کے صاحبزادے بونگ بونگ مارکوس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی کامیابیوں میں سے ایک کے لیے تیار ہیں۔
فاتح صدارتی امیدوار 30 جون کو چھ سال کی مدت کے لیے عہدہ سنبھالیں گے۔
مارکوس کے انتخابی مہم کے رنگ والی سرخ رنگ کی ٹی شرٹس میں ملبوس بونگ بونگ کے حامی پیر کی رات منڈالیونگ سٹی میں پارٹی ہیڈ کوارٹر کے باہر جمع ہوئے۔ جنہوں نے پارٹی پرچم لہرا کر، فتح کے نشان بنا کر اور کاروں نے ہارن بجا کر جیت کا جشن منایا۔
بونگ بونگ مارکوس نے رات گئے ’قوم سے خطاب‘ میں اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے تک چوکس رہیں۔
انہوں نے کہا: ’اگر ہم خوش قسمت رہے تو میں توقع کروں گا کہ آپ کی مدد میں کمی نہیں ہو گی اور آپ کا اعتماد ختم نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے آنے والے وقت میں بہت کچھ کرنا ہے۔‘
مارکوس صدر روڈریگو ڈوٹرٹے کی جگہ لیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان کے دورہ اقتدار میں منشیات کے خلاف جارحانہ کارروائی میں پولیس نے مقدمے کے بغیر ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ن کی بیٹی سارہ ڈوٹیرٹے، جو مارکوس کی رننگ پارٹنر تھیں، ایک الگ انتخابی دوڑ میں نائب صدر کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
'بونگ بونگ' مارکوس کون ہیں؟
64 سالہ مارکوس نے ان انتخابات میں ’ہم ایک ساتھ مل کر دوبارہ اٹھیں گے‘ کے نعرے کے ساتھ حصہ لیا۔ انہوں نے اپنے والد کی آمرانہ حکومت کو اپنی انتخابی مہم میں سنہری دور کے طور پر پیش کیا ہے۔
بونگ بونگ 1965 سے 1986 تک ملک پر حکومت کرنے والے سابق آمر کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ مارکوس سینئر نے اقتدار میں رہنے کے لیے برسوں مارشل لا لگانے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کو تشدد، گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں سے نشانہ بنایا۔ بہت سے مبصرین ان کے دورہ اقتدار کو اب بھی ملکی تاریخ کے تاریک ترین ادوار میں سے ایک کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
1972 میں فلپائن میں مارشل لا کے 14 سالہ دور کا آغاز ہوا جو بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوج اور پولیس کے تشدد کے لیے بدنام تھا۔ مارکوس سینئر کو اقتدار میں رہتے ہوئے اربوں ڈالر کی سرکاری دولت لوٹنے کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
مارکوس کی آمریت کا زوال جمہوریت کے حامی سیاست دان بینگنو نینوئے ایکینو جونیئر کے ہائی پروفائل قتل کے بعد سے شروع ہوا جس نے ایک بغاوت کو جنم دیا۔ اس بغاوت کو عوامی طاقت کے انقلاب کا نام دیا گیا۔
مظاہروں کو بالآخر فوج کے سینئر ارکان کی حمایت حاصل تھی جنہوں نے صدر کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔
ملک میں بڑے پیمانے پر بدامنی کے دنوں نے مارکوس خاندان امریکی ہیلی کاپٹروں پر امریکی ریاست ہوائی فرار ہو گئے۔ بونگ بونگ مارکوس کی عمر اس وقت 28 سال تھی۔ ان کے والد صرف تین سال بعد یعنی 1989 میں ہوائی میں جلاوطنی کے دوران انتقال کر گئے اور ان کی والدہ ایملڈا مارکوس، جو اب 92 سال کی ہیں، 1990 کی دہائی میں جلاوطنی ختم کر کے واپس وطن آئیں۔
امریکی کسٹمز حکام کی رپورٹس کے مطابق مارکوس خاندان اپنے ساتھ زیورات، مہنگے کپڑے اور دسیوں لاکھوں ڈالر لے گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے والد کے بدنام زمانہ دورہ اقتدار کے لیے معافی نہ مانگنے والے بونگ بونگ مارکوس پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کم ظاہر کرکے ملک کے آمرانہ ماضی کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور اس بیانیے کو فروغ دیا کہ اس دور میں ملک نے اقتصادی ترقی کی منازل طے کیں۔
سوشل میڈیا پر جاری اپنی بھرپور مہم میں مارکوس اور سارہ ڈوٹیرٹے مستقبل کے لیے اپنے وژن کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے لیکن وہ فلپائنی عوام میں ’اتحاد‘ کے اپنے مقبول نعرے کے ساتھ گونج پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔
کوریوگرافک مہم کے دوران ’یونی ٹیم‘ کے خیال کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹٓک اور یو ٹیوب کا بخوبی استعمال کیا۔ اس دوران ناقدین نے مارکوس پر اپنے مخالفین کو بدنام کرنے اور اپنے خاندان کی تاریخ کی تصحیح کے لیے آن لائن ٹرولرز کی فوج اتارنے کا الزام لگایا۔
بونگ بونگ مارکوس نے کچھ عرصہ فلپائن میں تعلیم حاصل کی پھر وہ بورڈنگ سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔
ان کا اصرار ہے کہ انہوں نے اپنی گریجویٹ ڈگری آکسفورڈ سے مکمل کی ہے تاہم یونیورسٹی مبینہ طور پر دعویٰ کرتی ہے کہ انہوں نے گریجویشن کا کورس مکمل نہیں کیا اور محض سوشل سائنسز میں خصوصی ڈپلومہ کیا ہے۔
انہوں نے ایک وکیل لوئیس ارانیٹا مارکوس سے شادی کی جو لیزا کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے تین بیٹے ہیں جن میں سب سے بڑے بیٹے شمالی صوبے کی پہلی ضلعی کانگریس کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
بونگ بونگ مارکوس قانونی مسائل کے باوجود 1991 میں ایوان نمائندگان اور 2010 میں سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے۔
ان کے خاندان کو تقریباً 10 ارب ڈالر لوٹی گئی دولت کے حوالے سے متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔
© The Independent