مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والی فلسطینی صحافی برادری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایسے وقت میں پاکستانیوں کے وفد کے ’صہیونی ریاست‘ کے دورے اور اس کے صدر سے ملاقات کی خبر پر صدمے سے دوچار ہے جب فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کا قتل ہوا۔
پاکستانی اور امریکی شہریوں پر مشتمل ایک وفد ان دنوں اسرائیل کا سات روزہ دورہ کر رہا ہے، جس میں اس نے اسرائیلی صدر اسحاق برتصوغ سمیت ملک کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی تھی۔
فلسطین سے تعلق رکھنے والے صحافتی گروپ نے بیان میں کہا کہ صحافی برادری کے وفد میں پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے وابستہ پروگرام اینکر احمد قریشی بھی شامل ہیں جو اسرائیلی بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا یہ عمل شیرین کے قتل میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر پروگرام کی میزبانی کرنے والے صحافی احمد قریشی نے ہفتے کو اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ انہوں نے مسجد الاقصی میں فجر کی نماز پڑھی جس کے بعد وہ پاکستانی امریکی وفد کے ساتھ ہیکل سلیمانی کے سامنے کھڑے ہیں۔
Blessed to have performed Fajr prayer at Al-Aqsa Mosque and then stand before Dome of the rock, with the Pakistani-American delegation that visited #Israel and #Palestinian territories. Thank you for our hosts @sharakango+@ammwecofficial. More details coming soon. pic.twitter.com/RoA9jbvsS9
— Ahmed Quraishi (@_AhmedQuraishi) May 14, 2022
ان دنوں اسرائیل میں موجود احمد قریشی نے جمعے کو ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے اندر اور اطراف کے حالات پرامن ہیں۔ صرف رمضان میں جمعے کے وقت کچھ ’عسکریت پسند گروپ‘ نماز تراویح کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں، ہلکے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کرتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کرتے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔
The conditions inside and around Masjid Al-Aqsa are peaceful. Only during Fridays of Ramadan some militant groups exploit Taraweeh prayers to enter mosque building, smuggle light arms, and create confrontation with security forces. No one dares prevent Pal Muslims from praying.
— Ahmed Quraishi (@_AhmedQuraishi) May 13, 2022
فلسطینی صحافتی گروپ نے بیان میں مزید کہا کہ فلسطین کی صحافی برادری حکومت پاکستان، سرکاری اور عوامی انجمنوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے مرتکب وفد کے ارکان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
فلسطین سے تعلق رکھنے والے صحافتی گروپ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تعلقات بحال کرنے کی ان کوششوں سے اسرائیل کو فلسطینی عوام کے خلاف بالعموم اور میڈیا کے خلاف بالخصوص قتل اور دہشت گردی میں اضافے کا حوصلہ ملتا ہے۔‘
’اس اقدام سے القدس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مجرمانہ پالیسیوں سے ساز باز کی بو آتی ہے۔‘ اس دورے کے حوالے سے احمد قریشی پر سوشل میڈیا پر کافی الزامات عائد ہو رہے تھے جس کے جواب میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ نہ وہ پی ٹی وی کے ملازم ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔
احمد قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزه سے جاری یہ بیان جھوٹ، فیک نیوز، اور پروپیگنڈا کی بہترین مثال ہے۔ ان کا کہنا ہے ایسے بیان کا اس وقت غزہ کی ایک مشکوک تنظیم کی طرف سے جاری ہونا، یہ معاملہ محض اتفاق نہیں بلکہ یہ ہی بیرونی سازش کا ثبوت ہے کہ ’کس طریقے سے ایک پاکستانی سیاسی جماعت ایک پاکستانی صحافی کے خلاف اکساتی ہے اور اس پاکستانی پارٹی کی حمایت میں غزہ سے مشکوک تنظیم اس کا دفاع کرنے آ جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اور مسلسل جھوٹ کہ میں نے اور امریکی پاکستانیوں کے وفد نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں سے ملاقات کیں ہیں۔ سب نے گرمجوشی سے پاکستانی وفد کا استقبال کیا، کسی نے وہ باتیں نہیں کیں جو غزہ کی یہ مشکوک تنظیم اپنے بیان میں لکھ رہیں ہے۔ غزہ کی مشکوک تنظیم اور پاکستان کی سیاسی جماعت کا اتفاق دیکھیں کہ دونوں کا بیان ایک جیسا ہے۔‘
تاہم احمد قریشی واضح کر چکے ہیں کہ ’یہ ایک پاکستانی نہیں امریکی وفد ہے۔ اس میں پاکستانی نژاد امریکی ہیں جو واشنگٹن کے ذریعے تل ابیب پہنچے۔‘
انہوں نے گذشتہ روز ایک ٹوئٹ میں واضح کیا تھا کہ وہ ایک صحافی ہیں جنہوں نے پچھلی دو دہائیوں میں مشرق وسطیٰ کی کوریج کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ماضی میں مختصر مدت کے لیے سرکاری اسائنمنٹس پر کام کر چکے ہیں۔
No. I'm a journalist who's covered the Middle East for the past two decades. I've worked in the past on brief Govt assignments in the past. But this visit is study tour by private individuals with no link whatsoever at any level with the Government of Pakistan.
— Ahmed Quraishi (@_AhmedQuraishi) May 13, 2022
ان کے مطابق وہ ’کچھ ماہ سے ایک عارضی پروگرام کے میزبان ہیں‘ اور ’یہ وفد مشرق وسطیٰ میں امن کےحوالے سے دبئی میں کانفرنس کے بعد اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقات کرنے گیا جو کہ ایک تعلیمی دورہ ہے جس پرسیاست کرنا افسوس ناک ہے۔‘
خیال رہے کہ شراکہ، جس کا مطلب عربی زبان میں شراکت داری ہے، ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جسے 2020 میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لوگوں نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کے بعد قائم کیا تھا۔
اس تنظیم کی جانب سے مدعو وفود ایک دوسرے کی تاریخ، معاشرے اور جیوپولیٹیکل حقائق کے بارے میں سیکھتے ہیں اور اپنی ثقافت اور نقطہ نظر شیئر کرتے ہیں۔
شراکہ تنظیم کی ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ’وفد نے اسرائیلی صدر سے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے پر اپنی کوششوں سے متعلق بات کی ہے۔‘