صحافی جو عوام کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں۔ عوام تک خبر پہنچاتے ہیں۔ بطور صحافی اعلی شخصیات تک رسائی ہونا انہونی نہیں بلکہ معمول ہے لیکن اس دوران اگر کسی ایک فریق یا حکومت وقت کی جانب سے عہدے کی پیشکش کی جائے تو صحافی کو اس حوالے سے کیا فیصلہ کرنا چاہیے؟
دو روز قبل سینیئر صحافی و اینکر پرسن فہد حسین سید کو وزیراعظم شہباز شریف کا معاون خصوصی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا جس سے میڈیا کے حلقوں میں یہ بحث دوبارہ چھڑ گئی۔
بائیں بازو کے صحافی اور اینکرز نے اس پر تنقید کی اور حکومت وقت کے نوازے جانے کی تشبیہہ دی۔ جبکہ متوازن رائے رکھنے والے صحافیوں نے اسے فہد حسین کا ذاتی فیصلہ قرار دیا ہے تاہم انہوں نے ایک اچھے صحافی سے محروم ہونے پر افسردگی کا اظہار بھی کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب فہد حسین سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی وہ اپنی نئی حیثیت کے حوالے سے میڈیا پر کمنٹ نہیں دے سکتے۔ معاملات واضح ہونے پر اپنا موقف دیں گے۔
سینیئر صحافیوں کی رائے
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے سینیئر صحافیوں سے رابطہ کرکے اُن کی رائے معلوم کی۔ سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ایک صحافی کو اتنا ہی حق ہے شعبہ تبدیل کرنے کا جتنا کسی کھلاڑی یا ریٹائرڈ فوجی، کسی ڈاکٹر یا وکیل کو ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر کھلاڑی سیاست میں آسکتا ہے تو صحافی تو زیادہ اچھے سیاستدان ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ وہ معاشرے کی نبض کو سمجھتے ہیں۔ جیسے مولانا محمد علی جوہر جیسا بڑا نام ہمارے پاس موجود ہے۔ وہ پہلے صحافی تھے بعد ازاں تحریک پاکستان اور سیاست میں آئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے شعبے کی تبدیلی پر تو دو رائے نہیں ہے لیکن اگر کوئی یہ کرے کے بعد میں دوبارہ صحافت میں آجائے تو یہ ممکن نہیں کیوں کہ اس سے پھر جانبداری پر سوال اُٹھیں گے۔
سینیئر صحافی حامد میر نے اس نکتے پر ٹویٹر پر کہا کہ ’بہت سے اچھے صحافی جب سیاست میں آئے تو ناکام بھی ہوئے اُن میں ڈان کے چیف ایڈیٹر الطاف حسین ہیں جنہوں نے جنرل ایوب کے زمانے میں وزارت لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کامیاب وہ ہوتے ہیں جو انتخابات جیت کر آتے ہیں۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’وہ اداس ہیں کہ اب فہد حسین کے کالمز نہیں پڑھ سکیں گے۔‘
Late night development. I was a regular reader of @Fahdhusain but never read his column this morning. He joined politics late last night. I wish him good luck but I am also very sad because we lost a good journalist. https://t.co/tLTmC9B14R
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) May 14, 2022
سینیئر صحافی روف کلاسرا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کچھ لوگ جسٹیفائی کر رہے ہیں کہ کیا حرج ہے اگر صحافی سیاسی عہدہ لے لیں۔ جبکہ کچھ تنقید کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’امریکہ میں بھی ہوتا ہے کہ صحافی کو اکثر میڈیا مینجمنٹ کے لیے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں لے آتے ہیں لیکن وہاں عوامی رائے میچیور ہے لیکن یہاں عوامی رائے مختلف ہوتی ہے۔‘
’پاکستان میں لوگ آپ کو جج کرتے ہیں بغیر حقیقت جانے رائے تھوپ دیتے ہیں کہ پاکستان میں صحافت کو سیڑھی بناتے ہیں کچھ لوگ آتے ہیں کالم لکھتے ہیں کوئی ایک لائن پکڑ لیتے ہیں اور پھر تعلق بنا کر کسی عہدے پر پہنچ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ حکومت وقت سے عہدہ نہیں لینا چاہیے۔ کیوں کہ اندر کے لوگ جب حکومت میں جاتے ہیں تو اس کا کبھی میڈیا انڈسٹری کو نقصان ہو جاتا ہے۔‘
صحافی جو سیاست سے منسلک ہو گئے
یقینی طور پر پیشہ یا شعبہ تبدیل کرنا کسی بھی انسان کا حق ہے۔ ایک وقت میں دو شعبوں میں نہیں رہا جا سکتا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ صحافی بھی ہوں اور کسی سیاسی جماعت کے ساتھ بھی وابستہ ہوں۔ کیوں کہ اس صورت میں وابستگی والی جماعت کی خبر میں سمجھوتہ ہو سکتا ہے جو کہ صحافت کے پیشے کے ساتھ نا انصافی ہے۔ لیکن صحافت کے شعبے کو چھوڑ کر اگر کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کا فیصلہ ہے تو پھر آپ صحافی نہیں رہیں گے۔
اس کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن ہیرلڈ کی 11 سال ایڈیٹر رہیں بعد ازاں انہوں نے اپنا شعبہ تبدیل کرتے ہوئے 2001 میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
اسی طرح مشاہد حسین سید جنہوں نے 90 کی دہائی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی وہ بھی شعبہ صحافت سے منسلک رہ چکے ہیں۔ وہ 80 کی دہائی میں دی مسلم کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں اس کے علاوہ دی ہندوستان ٹائم کے لیے بھی لکھتے رہے ہیں۔ مشاہد حسین سید نے سیاسی رپورٹنگ کی اور بعد ازاں سیاست سے ہی منسلک ہو گئے۔
اس کے علاوہ ابصار عالم جو شعبہ صحافت میں بڑا نام رہ چکا ہے۔ دنیا اور جنگ گروپ سے وابستہ رہے۔ 2013 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو انہیں چیئرمین پیمرا کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔ اس پر مخالف حلقوں کی جانب سے کافی تنقید بھی کی گئی تھی۔
اس حوالے سے ابصار عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چئیرمین پیمرا بننے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ٹی وی پروگرام کبھی نہیں کریں گے کیونکہ وہ ریگولیٹر کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جو صحافت کے بعد سیاست میں آئے۔