مستقبل میں چاند پر جانے والے خلا باز اپنی پیاس بجھا سکیں گے، نہا سکیں گے اور اپنی خلائی گاڑی کے لیے پانی کو بطور ایندھن استعمال کر سکیں گے اور اس سب کے لیے پانی کو چاند پر موجود قدیم آتش فشاؤں سے تھوڑی سی کھدائی کرکے حاصل کیا جائے گا۔
یہ انکشاف یونیورسٹی آف کولوریڈو بولڈر کے محقیقن کی جانب سے ’دا پلینٹری سائنس جرنل‘ میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں کیا گیا ہے۔
تیزی سے سامنے آنے والے شواہد سے پتہ چلا ہے چاند پر اندازوں سے زیادہ پانی موجود ہے جو اس کے دونوں قطب پر موجود سایہ دار گڑھوں میں چھپا ہوا ہے۔
تحقیق سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس پانی کا زیادہ تر حصہ اسی بڑے پیمانے پر آتش فشاں پھٹنے سے حاصل ہو سکتا ہے جس سے نکلنے والے لاوے کے بہاؤ سے چاند کی سطح پر گڑھے پیدا ہوئے تھے اور یہیں پانی کے بخارات جمع ہو کر عرض البلد کے مقامات پر منجمد حالت میں موجود ہیں۔
مقالے کے سرکردہ مصنف، فلکیات اور سیاروں کے علوم میں گریجویٹ سٹوڈنٹ اینڈریو ولکوسکی اور کولوراڈو یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا: ’ہم اسے (پانی کو) چاند پر جمی برف کے طور دیکھتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ جمع ہوا ہے۔‘
طویل وقت کے ساتھ یہاں برف کی درجنوں یا اس سے بھی کئی فٹ زیادہ موٹی پرتیں بن سکتی تھیں۔ چاند کی تسخیر اور وہاں کے مقامی وسائل پر انحصار کرنے والے خلابازوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے جن کو اس (پانی) کو حاصل کرنے کے لیے محض چاند کی مٹی کو ہی ہٹانا پڑے گا۔
مطالعے کے شریک مصنف اور فلکی طبیعیات اور سیاروں کی سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر پال ہین نے ایک بیان میں کہا: ’یہ ممکن ہے کہ چاند کی سطح سے پانچ یا 10 میٹر نیچے سے آپ برف کی بڑی پرتوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ ہمیں واقعی ڈرل کرنے اور اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
حالیہ شواہد اس سے بھی زیادہ ہائیڈریٹڈ (پانی کی موجودگی والے) چاند کی جانب اشارہ کرتے ہیں جتنا کہ سائنسدانوں کو توقع تھی۔
سال 2020 میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنی تحقیق میں بتایا تھا کہ چاند پر موجود پانی پر مشتمل برف سورج کی سخت تپش میں بخارات بننے کے بجائے دھوپ والی جگہوں پر بھی سائے میں ہونے کے باعث پگھلنے سے بچ سکتی ہے۔ تاہم یہ غیر واضح ہے کہ پانی والی یہ برف کہاں سے آئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئے مقالے میں 2017 کی تحقیق پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین ارب سال پہلے چاند کے پھٹنے سے اتنا گیس پر مشتمل مواد خارج ہوا تھا کہ چاند کی فضا میں مریخ پر موجودہ ماحول سے ڈیڑھ گنا زیادہ سطحی دباؤ پیدا ہو گیا لیکن یہ قمری ماحول سات کروڑ سال کے عرصے میں خلا میں زائل ہو گیا۔
تاہم ڈاکٹر ہین اور ولکوسکی کا خیال ہے کہ آتش فشاں پھٹنے سے پانی کے بخارات چاند کی سطح پر برف کی طرح جم گئے ہوں گے۔
ان کے کمپیوٹر ماڈلنگ سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف پانی پر مشتمل برف اس طرح سے وجود میں آئی ہو گی بلکہ تقریباً 18 کواڈریلین پاؤنڈ آبی بخارات، جو تقریباً ان 41 فیصد آبی بخارات پر مشتمل تھے جو فعال قمری آتش فشاں سے خارج ہوئے، برف کی طرح منجمد ہو گئے ہوں گے۔
پانی کی یہ مقدار مشی گن جھیل کے پانی سے بھی زیادہ ہے اور یہ ناسا کے لیے بڑی خوشخبری ہو سکتی ہے کیوں کہ امریکی خلائی ایجنسی اپنے ’آرٹیمس پروگرام‘ کے تحت 2025 میں انسان کو چاند پر واپس بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور 2027 سے شروع ہونے کے بعد تقریبا ہر سال ایک مشن چاند پر بھیجا جائے گا۔ھ
خلا میں لے جانے کے لیے پانی ایک بھاری سامان ہے اور پھر بھی اسے لے جانا ضروری ہے۔ خلابازوں کو پینے، خوراک اگانے اور راکٹ کا ایندھن بنانے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ زمین سے خلائی جہاز چاند پر موجود خلابازوں کو ایک انتہائی کم مقدار میں ہی اسے سپلائی کر سکتا ہے تو ناسا ان مقامات کی تلاش میں ہے جہاں یہ آسانی سے دستیاب ہو۔
ایک جانب آرٹیمس مشن میں چاند کا مطالعہ کیا جائے گا وہیں ناسا اسے مریخ کے حتمی مشن کے لیے تربیتی میدان اور لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
چاند اور پھر مریخ کی سطح پر ایک وقت میں ہفتوں یا مہینوں تک زندہ رہنے کے لیے ضروری ٹیکنالوجیز، آپریشنز اور طریقہ کار کی جانچ کرنے والے خلابازوں کے لیے چاند کے پانی کا استعمال کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
© The Independent