سری لنکا میں شہری سیاسی اور معاشی بحران سے شدید متاثر ہیں اور مرکزی بینک نے اعلان کیا ہے کہ بدترین سیاسی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار ملک اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کرگیا ہے۔
مرکزی بینک کے گورنر نندالال ویراسنگھے نے جمعرات کو کہا کہ ملک 6.3 کروڑ پاؤنڈ (7.8 کروڑ ڈالر) مالیت کے دو ساورن بانڈز پر سود کی ادائیگی کے لیے 30 دن کی مہلت کے باوجود بدھ تک ادائیگی نہیں کر سکا۔
کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے مطابق سری لنکا اس صدی میں ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جو اس طرح کی ڈیڈ لائن پر پورا نہیں اتر سکا۔
بین الاقوامی قرض دہندگان کو ادائیگیوں کی آخری تاریخ گزر جانے کے بعد بات کرتے ہوئے مرکزی بینک کے گورنر نے کہا: ’ہمارا موقف بہت واضح ہے، ہم نے کہا کہ جب تک وہ [ہمارے قرضوں] کی تشکیل نو نہیں کرتے ہم ادائیگی نہیں کر سکیں گے۔ تو اسی کو آپ قبل از وقت ڈیفالٹ کہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’تکنیکی تعریفیں ہو سکتی ہیں۔۔۔ اپنی طرف سے وہ ہمیں ڈیفالٹ سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارا موقف بہت واضح ہے، جب تک قرضوں کی تشکیل نو نہیں ہوتی، ہم ادائیگی نہیں کر سکتے۔‘
تجزیہ کاروں کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سری لنکا نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ معاشی بحران کے باعث اپنے غیرملکی کرنسی کے ذخائر قائم رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے وہ اپنے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی نہیں کرے گا۔
موڈیز انویسٹرز سروس نے بھی جمعرات کو تصدیق کی کہ سری لنکا نے ’پہلی بار اپنے بین الاقوامی بانڈز پر ڈیفالٹ کیا ہے۔‘
موڈیز کے مطابق اسے توقع ہے کہ بیل آؤٹ پیکج کے لیے سری لنکا اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدہ ہو جائے گا لیکن اس میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
موڈیز کے مطابق پاکستان آخری ایشیائی ملک تھا جو 1999 میں ڈیفالٹ کر گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ ریٹنگز نے سری لنکا کے ڈیفالٹر ہونے کی تصدیق کی اور اپنی اسیسمنٹ کو ’محدود ڈیفالٹ‘ تک کم کر دیا۔
سری لنکا پر بین الاقوامی قرض دہندگان کا تقریباً 41 ارب پاؤنڈ (51 ارب ڈالر) قرض ہے۔ اس میں دو طرفہ قرض دہندگان چین، جاپان اور بھارت بھی شامل ہیں۔
30 سال تک بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار رہنے والے اس ملک نے 2009 میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے بھاری قرضے لینا شروع کیے تھے۔
تاہم عالمی وبا اور اس کی 2019 کی ٹیکس کٹوتی کی پالیسی کی وجہ سے سیاح آنا کم ہوگئے جس کے نتیجے میں بالآخر غیر ملکی کرنسی میں کمی اور قرضوں میں اضافہ ہوا۔
یہ ملک اب کئی مہینوں سے70 برسوں میں پہلی بار بد ترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔
اس سے بڑھتی ہوئی افراط زر، غیرملکی کرنسی میں کمی، خوراک، ادویات، تیل اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
غیر ملکی کرنسی کی کمی کی وجہ سے سری لنکا ان اجناس کی درآمد کرنے سے قاصر ہے جن پر وہ بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
اس صورتحال پر عوام کا غصہ مسلسل پرتشدد مظاہروں کے سلسلے میں تبدیل ہوگیا جس کی وجہ سے وزیر اعظم مہندا راجاپاکسے کو مستعفی ہونا پڑا۔
جھڑپوں میں تقریباً نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دارالحکومت کولمبو کی سڑکوں پر پرتشدد مظاہروں کے بعد 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ متعدد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
سری لنکا قرض دہندگان کے ساتھ بیل آؤٹ اور قرضوں کی تشکیل نو پر بات چیت کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
جمعرات کو انہوں نے توقع ظاہر کی منگل تک ممکنہ قرض پروگرام پر معاہدہ ہوجائے گا۔
سری لنکا نے پہلے کہا تھا کہ اسے جاری بحران سے نکلنے کے لیے کم از کم دو سے تین ارب پاؤنڈ کی ضرورت ہے۔
مرکزی بینک کے گورنر نندالال ویراسنگھے نے خبردار کیا کہ افراط زر جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے، مزید بڑھنے والی ہے اور تقریباً 40 فیصد تک بڑھ جائے گی۔
انہوں نے کہا: ’ظاہر ہے کہ افراط زر 30 فیصد کے قریب ہے۔ یہ اس سے بھی بڑھ جائے گی، اگلے ایک دو ماہ میں افراط زر 40 فیصد کے قریب ہو جائے گی۔‘
© The Independent