منکی پاکس وائرس سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں بھی ہائی الرٹ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے ’منکی پاکس‘ کے کیسز مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کرنے کے بعد پاکستان کے قومی ادارہ برائے صحت نے منکی پاکس کے حوالے سے ملک بھر میں ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔

سنٹرل افریقن ریپبلک میں 18 اکتوبر 2018 کو  ایک ڈاکٹر منکی پاکس سے متاثرہ خاتون کا معائنہ کر رہا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے ’منکی پاکس‘ کے کیسز مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کرنے کے بعد پاکستان کے قومی ادارہ برائے صحت نے منکی پاکس کے حوالے سے ملک بھر میں ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔

پاکستان کے قومی ادارہ برائے صحت کی جانب سے ملک کے تمام داخلی راستوں بشمول ایئرپورٹس پر مسافروں کی نگرانی کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔

قومی ادارہ برائے صحت نے وفاقی اور صوبائی حکام کو منکی پاکس کے مشتبہ کیسز کے حوالے سے ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ملک بھر کے بڑے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو بھی آئسولیشن وارڈ قائم کرنے کے لیے تیار رکھا جائے۔  

پیر کو جاری ایک بیان میں قومی ادارہ برائے صحت نے ہسپتالوں میں موجود طبی عملے کو منکی پاکس کے مشتبہ مریضوں سے احتیاط سے پیش آنے کا مشورہ دیا ہے۔  

واضح رہے کہ دو روز قبل عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا تھا کہ منکی پاکس وائرس ان ممالک میں پھییل رہا ہے جہاں عام طور پر یہ مرض نہیں پایا جاتا، جس کے بعد دنیا بھر میں منکی پاکس وائرس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق تاریخی طور پر منکی پاکس کے انفیکشن صرف وسطی اور مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں لیکن گذشتہ چند ہفتوں میں برطانیہ، امریکہ، سپین، پرتگال، اٹلی، سویڈن اور کینیڈا میں بھی کیسز سامنے آئے ہیں۔

اس وائرس کے متاثرین میں زیادہ تر وہ نوجوان شامل ہیں جنہوں نے اس سے قبل افریقہ کا سفر نہیں کیا۔ 

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہفتے تک 12 رکن ممالک سے منکی پاکس کے 92 مصدقہ کیسز اور 28 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ 

کیا منکی پاکس کوئی نیا وائرس ہے؟  

آغا خان ہسپتال کے متعدی امراض کے شعبے کے سربراہ اور ماہر ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق منکی پاکس کوئی نیا وائرس نہیں ہے، اس وائرس کے پہلے کیسز افریقہ میں پائے گئے تھے۔ مگر 1970 سے اب تک زیادہ تر کیس افریقہ میں ہی پائے گئے، خاص طور پر اس وائرس سے کانگو اور مغربی افریقہ کے دیگر ممالک میں لوگ متاثر ہوتے رہے ہیں۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل محمود نے بتایا کہ ’1970 سے اب تک کوئی اکا دکا کیس افریقہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی پائے گئے، مگر ان میں زیادہ تر لوگوں کو یا تو وہاں کے کسی جانور سے یہ وائرس لگا یا پھر ان متاثرہ ملکوں سے کوئی فرد کسی اور ملک گیا تو وائرس اپنے ساتھ لے گیا۔‘ 

منکی پاکس کیسے پھیلتا ہے اور کتنا جان لیوا وائرس ہے؟  

ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق منکی پاکس وائرس متاثر فرد کو چھونے یا اس کے جسم پر نکلنے والے دانوں کو چھونے یا متاثرہ فرد کے زیر استعمال بستر، تولیہ یا کپڑوں کو چھونے سے یہ وائرس متاثرہ فرد سے دوسرے انسان کو لگ سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ وائرس ہوا کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے، مگر بذریعہ ہوا یہ وائرس کرونا وائرس کی نسبت زیادہ دور تک نہیں پھیلتا بلکہ یہ وائرس چھونے سے زیادہ پھیلتا ہے۔‘

ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق اس وائرس سے شرح اموات ایک فیصد ہے۔

 ڈاکٹر فیصل محمود نے بتایا کہ اس وقت افریقہ کے علاوہ دیگر ممالک میں رپورٹ ہونے والے کیسوں میں متاثرہ افراد کا نہ تو افریقہ سے تعلق ہے اور نہ ہی انھوں نے کسی جانور کو چھوا ہے اور یہی بات تشویش ناک ہے۔ ماہرین یہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وائرس ان افراد کو کیسے لگا؟  

اس وائرس کے انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد علامات ظاہر ہونے میں ایک سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ جو کیس کنفرم ہوگئے ہیں، ان کے علاوہ بھی متوقع طور پر زیادہ کیس بھی ہوسکتے ہیں، مگر ان میں تاحال علامات ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ اس لیے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ زیادہ کیس رپورٹ ہوسکتے ہیں۔  

منکی پاکس نئی عالمی وبا ہو سکتی ہے؟  

  ڈاکٹر فیصل محمودکے مطابق کرونا وائرس کی نسبت اس وائرس کی نشاندہی کرنا آسان ہے اور یہ وائرس کرونا وائرس کے مقابلے میں زیادہ نہیں پھیلتا۔ دوسری بات یہ کہ یہ وائرس صرف اس وقت ہی دوسری فرد کو لگ سکتا ہے جب وائرس کی علامات شروع ہوں۔ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اگر علامات شدید نہیں تو صرف آئیسولیٹ ہوجانا پڑتا تھا، مگر اس وائرس لگنے کے بعد ہر صورت میں ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہوگا، کیؤں کہ یہ وائرس جسم پر دانے نکلنے کا سبب بنتا ہے۔  

کیا یہ وائرس پاکستان میں تیزی سے پھیل سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل محمود نے کہا کہ تاحال کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے اور اگر تمام ہسپتال اس ہر آنے والے مریض پر نظر رکھیں اور اگر کوئی علامات ہوں تو اس مریض کو آئیسولیٹ کرلیا جائے۔ اور ویسے بھی یہ وائرس کرونا وائرس کی طرح بہت تیزی سے نہیں پھیلتا۔  

 منکی پاکس وائرس کی عام علامات میں بخار، سر، پٹھوں، کمر میں درد، جسم پر سوجن کے علاوہ سردی لگنا اور تھکاوٹ محسوس کرنا اور جسم پر دانے یا پھوڑے نکلنا شامل ہیں۔ ان دانوں میں خارش کے ساتھ تکلیف محسوس کرنا عام ہے اور یہ علامات عام طور پر دو سے تین ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔  

عالمی ادارہ صحت کے مطابق چیچک کی ویکسین منکی پاکس کے خلاف جزوی مدافعت دے سکتی ہے۔ 2019 میں منکی پاکس کی ویکسین بھی تیار کی گئی تھی لیکن وہ بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت