پاکستان میں صحافیوں کی آواز دبانے کے لیے ماضی میں مختلف حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی تشدد، کبھی قاتلانہ حملہ تو کبھی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں بیروزگار کرنے کی شکایتیں سامنے آتی رہی ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پریس فریڈم انڈیکس رواں سال 12 درجے تنزلی کے ساتھ 157ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔
اب حال ہی میں دیکھا جائے تو چند پاکستانی صحافیوں کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
جن صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں ارشد شریف، صابر شاکر، سمیع ابراہیم اور عمران ریاض شامل ہیں جن پر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانات سے انتشار پھیلانے اور بغاوت پر اکسانے کی کوششوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے خلاف درج مقدمات کیا ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ارشد شریف کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں چھ مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 34 (مشترکہ مفاد پورا کرنے کے لیے اجتماعی طور پر جرم کا ارتکاب)،131 (افواج پاکستان کو بغاوت پر اکسانا)، 153 (اعانت کرنا، طلبہ کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے پر اکسانا)، 452 (کسی رہائشی مکان میں دوسرے شخص کو غیر قانونی طور پر مس کرنے کی غرض سے نقب زنی کرنا)، 499 (بدنامی) اور 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) شامل ہیں۔
صحافی ارشد شریف کے خلاف یہ ایف آئی آر کراچی، حیدر آباد، دادو، کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور پشین میں درج کی گئی ہیں۔
شکایت گزاروں نے یوٹیوب چینل پر صحافی مطیع اللہ جان کے ساتھ گفتگو میں ارشد شریف کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی جانب سے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی ’بے توقیری‘ کرنے اور ’فوج میں نفرت پھیلانے اور نفرت انگیز ماحول پیدا کرنے‘ کی کوشش کرنے کا لکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صحافی صابر شاکر کے خلاف ملک کے چار مختلف حصوں میں مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں پی پی سی کی 34، 131، 153، 499 اور 505 دفعات شامل ہیں۔
یہ مقدمات کوئٹہ، دادو، قلعہ عبد اللہ اور پشین میں درج کروائے گئے ہیں۔
دادو میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’ارشد شریف اور صابر شاکر کے درمیان کی گئی گفتگو میں ریاستی اداروں سے متعلق ’تضحیک آمیز زبان‘ استعمال کی گئی اور میر جعفر، میر صادق سے مشابہت دی گئی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق سمیع ابراہیم کے خلاف کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور پشین میں ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جن میں پی پی سی 34، 131، 153 اے (اعانت کرنا)، 499، 505 دفعات شامل ہیں۔
اسی طرح صحافی عمران ریاض خان کے خلاف ٹھٹھہ میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں پی پی سی 131، 153 اور 505 دفعات شامل ہیں۔
چاروں صحافیوں کے خلاف درج مقدمات میں پی پی سی کی 131، 153 اور 505 مشترک ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت کی اجازت کے بغیر صحافی ارشد شریف اور سمیع ابراہیم کو گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔
صحافیوں کا کیا موقف ہے؟
صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف سے متعدد بار رابطہ کرنے پر ان کا موقف نہ مل سکا تاہم اے آر وائی چینل میں ان کی ٹیم کی جانب سے فراہم کردہ بیان میں انہوں نے کہا کہ ’یہ بوگس ایف آئی آرز مقدمہ چلانے کے لیے نہیں بلکہ اذیت دینے کے لیے درج کی گئی تھیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ارادے کی خرابی اس حقیقت سے عیاں ہے کہ تقریباً ایک جیسے مواد کے ساتھ متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘
صحافی صابر شاکر اپنے خلاف مقدمات کو ایک ’سوچی سمجھی منصوبہ بندی‘ کا حصہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صحافیوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ محض دو چار لوگوں نے ایک ہی چھت تلے کیا۔ فیصلہ کرنے والے ایک خاص بیانیہ پاکستان میں مسلط کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ جو کہا جائے وہ کیا جائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے خطرناک وارننگ دی گئی کہ آپ ٹھیک ہو جائیں اور جو ہو گیا ہے اس کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اس کی حمایت بھی کریں۔‘
’ہماری کچھ ٹویٹس پر اعتراض تھا۔ میری دو ٹویٹس ڈیلیٹ بھی کروائی گئیں، میرے یوٹیوب چینلز کے مواد پر بھی اعتراض کیا گیا اور جس مواد پر ہمیں دھمکایا گیا وہ ایف آئی آر درج کروانے والوں نے مختلف شہروں میں استعمال کیا۔‘
صابر شاکر نے مزید کہا: ’یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک ہی ویڈیو چمن، پشین، حیدر آباد سمیت مختلف شہروں میں ایف آئی آر درج کروانے والوں کے پاس پہنچی؟‘
’مقدمات کے اندراج کا پیٹرن بھی وہی ہے جو ماضی میں صحافیوں کو سبق سکھانے اور انہیں پریشان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، ایف آئی آر کے اندراج کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔‘
دوسری جانب صحافی سمیع ابراہیم اور عمران ریاض خان کا موقف جاننے کے لیے ان سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ان صحافیوں کے خلاف زیادہ تر مقدمات سندھ میں درج کیے گئے ہیں۔
حکومت سندھ کا کیا کہنا ہے؟
صحافیوں کے خلاف مقدمات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایک دو صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہونے کا میں نے سنا ہے، باقی صحافیوں کے بارے میں مجھے علم نہیں۔‘
شرجیل میمن نے کہا کہ ’میں نے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ اس طرح کی ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ ایف آئی آر کا متن کیا ہے، کیا چارجز ہیں، مقدمات کس نے اور کیوں درج کروائے ہیں یہ معلوم کرنا ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات کی تمام تفصیلات معلوم کرنا ہوں گی۔
شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ ’اپنی فوج/ مسلح فورسز کے خلاف اس طرح کی مہم جوئی کرے، اگر کی ہے تو میں مذمت کرتا ہوں۔‘
’صحافیوں نے اگر عمران خان کے ’اداروں کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہیے‘ کے بیان کی حمایت میں لکھا ہے تو میں سمجھتا ہوں غلط لکھا ہے کیونکہ اداروں کو نیوٹرل ہونا چاہیے، آئین کہتا ہے کہ ہر ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر اداروں پر اس لیے تنقید کی جا رہی کہ وہ عمران خان کی بجائے آئین کو سپورٹ کیوں کر رہے ہیں تو کیا یہ درست ہے؟ اداروں کو نیوٹرل کرنا ہی جمہوریت کی فتح ہے۔‘
’تحریک عدم اعتماد کے دوران ادارے نیوٹرل رہے، اس سے قبل عمران خان کو بہت سپورٹ تھی، جب سپورٹ تھی تب یہی صحافی کیوں خاموش تھے؟
انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ اپنے اداروں کے خلاف ایک مہم چلائیں اور آپ کو بین الاقوامی سپورٹ بھی مل رہی ہے جو سپورٹ ثابت شدہ ہے کہ آپ کو برطانیہ، یورپ، امریکہ سمیت مختلف ممالک سے کمنٹس بھی آ رہے ہیں۔ اگر ادارے غلط بھی کر رہے ہیں تو ان کے سامنے تنقید کریں کہ آپ یہ غلط کر رہے ہیں، گھر کا جھگڑا گھر سے باہر نہیں لے جانا چاہیے۔‘
دیگر صحافی کیا کہتے ہیں؟
صحافی عمر چیمہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جن صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں ’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب بعض صحافیوں کو ’اٹھایا جا رہا تھا، گولیاں ماری جا رہی تھیں اور انہیں ہراساں کیا جا رہا تھا تو یہ پروپیگنڈے میں مصروف تھے اور ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ ان صحافیوں کی حمایت میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے صحافی برادری سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے لیے مذمت کرنا بہت آسان ہے، جب کسی صحافی کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی ہے اور مذمت کرنا آسان عمل بھی ہے۔‘
’لیکن جب صحافت کے نام پر کوئی اپنا ایجنڈا چلاتا ہے تو ہمارے پاس کوئی طریقہ کار ہی نہیں کہ ہم پوچھ سکیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔‘
سینیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات پہلے بھی درج ہوتے رہے ہیں اور آج بھی درج ہو رہے ہیں۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ ’میں نے پچھلے کچھ سالوں میں نہ صرف غداری، قتل اور اغوا کے جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا بلکہ غیرت کے نام پر قتل کی مخالفت کرنے پر توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے کا بھی سامنا کیا ہے، مجھ پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے چینل نے آج تک معذرت نہیں کی۔‘
’اب جب ان محب وطنوں پر مقدمے قائم ہو رہے ہیں تو ہم ان کی مذمت کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 157ویں نمبر پر اس لیے آیا کہ گذشتہ حکومت بھی صحافیوں پر مقدمات درج کر رہی تھی، ان پر پابندیاں لگا رہی تھی۔‘
حامد میر کا کہنا ہے کہ اب نئی حکومت بھی وہی کچھ کر رہی ہے۔ ’عمران خان کے دور میں صحافیوں کو مقدمہ درج کیے بغیر ہی ایف آئی اے اٹھا کر لے جاتی تھی اور اس دور میں مقدمہ درج ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالت گرفتاری سے بچا لیتی ہے کیونکہ عدالتوں کو پتہ ہے کہ پچھلے دور میں بھی غلط ہو رہا تھا اب بھی غلط ہو رہا ہے۔‘
صحافیوں کے خلاف ماضی میں مقدمات
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی مختلف ادوار میں متعدد صحافیوں پر مقدمات درج کیے جاتے رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں اقتدار سے ہٹائی جانے والی تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی کئی صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جن میں سینیئر صحافی حامد میر اور عاصمہ شیرازی شامل ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں سینیئر صحافی ہمایوں فر، نصرت جاوید، نجم سیٹھی سمیت شاہین صہبائی، ابصار عالم اور کئی دیگر صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
جبکہ ماصی میں فوجی صدر ضیا الحق کے دور میں سینیئر صحافی ناصر عثمانی، آئی ایچ راشد اور رانا اقبال وہ صحافی ہیں جنہیں کئی دیگر صحافیوں سمیت مقدمات کا ننشانہ بنایا گیا تھا۔