آنسو گیس کا نام ہم سب کے لیے کچھ نیا نہیں ہے، لیکن گذشتہ ایک دو روز سے یہ نام کچھ زیادہ سننے میں آیا جب پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں شریک کارکنوں پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ آنسو گیس کیا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک ہتھیار ہے جو کیمیائی مرکب سے بنتا ہے، جو مظاہرین اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جب آنسو گیس کا شیل انسانوں کے قریب گرتا ہے تو اس سے نکلنے والی گیس سے انسان تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس سے انسانوں پر شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم دونوں طرح کے اثرات سامنے آتے ہیں۔
شارٹ ٹرم اثرات میں آنکھیں جلنا شروع ہو جاتی ہیں، آنکھ ناک اور گلے میں شدید تکلیف ہونا شروع ہو جاتی ہے، کھانسی اور چھینکیں آتی ہیں اور آنسو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو متلی کے ساتھ ساتھ کچھ نگلنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ جلد پر بھی اثر کرتی ہے، جلد سرخ ہوجاتی ہے اور انسان جلد پر بھی جلن محسوس کرتا ہے۔ کچھ لوگ آنسو گیس کی شدت کی وجہ سے بےہوش بھی ہوجاتے ہیں۔ اس گیس سے نابینا پن اور موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
بہت سے ممالک اس پر پابندی لگا چکے ہیں جبکہ کچھ ممالک گائیڈ لائنز کے ساتھ اس کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔
بدھ (25 مئی) کو لاہور اور کراچی کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے ڈی چوک میں اس کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور اطراف کے رہائشیوں نے آنکھوں اور ناک میں شدید تکلیف کی شکایت کی۔ یہاں پر رہائشی کے علاوہ تجارتی مراکز، کلینکس اور ہسپتال بھی قائم ہیں۔
اسلام آباد کی رہائشی حمیرا بھی اس دوران آنسو گیس کا شکار ہوئیں، جو بلیو ایریا کے ایک ہسپتال میں داخل اپنی ایک عزیزہ کی تیمارداری کے وقت اس کی زد میں آگئی تھیں۔
ڈاکٹر سماویہ ماہر امراض جلد ہیں، جن کا کلینک ڈی چوک پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب جمعرات کو انہوں نے اپنا کلینک کھولا تو ہر طرف آنسو گیس کے اثرات تھے، جس سے ان کے سٹاف کی آنکھیں جلنے لگیں اور سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی۔
وہ کہتی ہیں: ’ہم بری طرح کھانس رہے تھے اور ہماری آنکھوں اور ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔‘
ڈاکٹر سماویہ نے بتایا کہ آنسو گیس سے متاثر ہونے کے بعد کھانسی، سانس لینے میں تکلیف، آنکھوں کا سرخ ہونا اور ان سے آنسو نکلنا عام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ اس سے متاثر ہونے کے بعد غنودگی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں یہ گیس جلد پر بھی اثر کرتی ہے اور سکن پر خارش اور جلن شروع ہوجاتی ہے۔ اگر آپ آنسو گیس سے متاثر ہوئے ہیں تو قریبی ہسپتال جائیں۔
ڈاکٹر ذیشان عالمی ادارہ صحت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آنسو گیس مختلف محلول سے بن کر بنتی ہے۔ یہ آنکھوں میں آنسو پیدا کرتی ہے، اس کے ساتھ سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور جلد پر جلن ہوتی ہے۔ اگر یہ دمہ یا سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے قریب پھٹے تو ان کے لیے یہ بہت خطرناک ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس گیس کا زیادہ استعمال بہت مہلک ہے۔ اگر آپ اس سے متاثر ہوں تو منہ کو دھوئیں اور بار بار دھوئیں۔ اگر زیادہ پانی میسر نہیں تو کپڑا گیلا کرکے منہ پر رکھ لیں۔ اگر آپ کو خدشہ ہو کہ آپ پر احتجاج کے دوران آنسو گیس سے حملہ ہوگا تو آنکھوں پر تیراکی والے چشمے پہن کر جائیں یا ریسپائریٹر کا استعمال کریں۔ جہاں آنسو گیس کے شیل فائر ہو رہے ہوں، اس جگہ کو چھوڑ دیں اور دور چلے جائیں۔‘
اسی طرح یورپ میں مقیم ماہر امراض سینہ ڈاکٹر وائے جے کہتے ہیں کہ ’یہ گیس نظام تنفس پر اثرانداز ہوتی ہے اور سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے پھیپھڑوں کا مرض ہے یا جو لوگ کرونا میں مبتلا ہیں ان کے لیے مزید پیچیدگی بڑھ سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے لانگ ٹرم اثرات میں نابینا پن، آنکھوں میں موتیا، سانس کی بیماری اور پھیپھڑوں کی بیماری بھی ہوسکتی ہے۔‘
ڈاکٹر طیب عظیم ماہر امراض چشم ہیں، جنہوں نے بتایا کہ آنسو گیس میں شامل کیمیکلز آنکھ، جلد اور سانس کی نالی میں درد کے ریسپٹرز کو فعال کردیتے ہیں۔ جیسے ہی اس کا اثر شروع ہوتا ہے آنکھوں میں درد، سرخی، پانی اور نظر کی کمزوری کی شکایت شروع ہوجاتی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اگر اس میں موجود کیمکل سے آنکھ کے کارنیا کونقصان پہنچے تو مکمل یا جزوی طور پر نابینا پن ہوسکتا ہے۔ اس سے آشوب چشم بھی ہوسکتا ہے اور نظر بھی کمزور ہوسکتی ہے۔ اگر آپ آنسو گیس کی زد میں آئیں تو آنکھوں کو صاف پانی سے دس منٹ تک دھوتے رہیں۔ خود سے کوئی قطرے استعمال مت کریں اور علامات زائل نہ ہونے کی صورت میں ماہر امراض چشم کو دکھائیں۔‘
آنسو گیس کے شیل ماحول اور انسانوں دونوں کے لیے مضر ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنان پر جو شیل استعمال کیے گئے، ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ زائد المعیاد تھے۔ اس پر ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظمیوں کو آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف انسانوں بلکہ مارگلہ ہلز پر موجود چرند پرند کے لیے بھی مضر ہے۔
اس گیس کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں آگ لگا کر اس کے اثر کو زائل کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ اس گیس کی زد میں آنے کی صورت میں صرف پانی معاون ہے۔ اگر علامات دور نہ ہوں تو فوری طور پر ہسپتال جائیں۔ دیسی ٹوٹکے مسئلے کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔