مولانا فضل الرحمٰن کی اقتدا میں گذشتہ ہفتے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے ایک سرائے میں گٹھ جوڑ کیا۔بالآخر آل پارٹی کانفرنس کی زنبیل سے ایوان بالا کے چیئرمین کی تبدیلی کا نوشتہ برآمد ہوا، جسے رہبر کمیٹی کے سپرد کردیا گیا اور 25 جولائی کو ’یومِ سیاہ‘ منانے کا مہورت بھی نکلا!
ہمارے عہد کے ممتاز شاعر جناب افتخار عارف نے ’بارہواں کھلاڑی‘ کے عنوان جو نظم کہہ رکھی ہے، اول کچھ اس کا ذکر ہوجائے۔ نظم کی چند سطریں ملاحظہ کیجئے۔۔۔
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلاڑی ہے
کھیل ہوتا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑتی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے
انتظارکرتا ہے
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسے لمحے کا
جس میں سانحہ ہوجائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھرمٹ میں
ایک جملہ خوش کن
ایک نعرہ تحسین
اس کے نام پر ہوجائے
سب کھلاڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتر ہوجائے
عصرِ رواں میں سیاسی سٹیج پر بارہویں کھلاڑی کا سوانگ مولانا فضل الرحمٰن رچا رہے ہیں۔ جنہیں عوام نے سیاسی پنڈال سے کچھ اس انداز سے باہر کیا ہے کہ وہ اسی لمحے میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب وہ کسی سانحے کے منتظر ہیں بلکہ یوں کہیے کہ سانحے کے اسباب پیدا کرنے میں جُتے ہوئے ہیں۔
گذشتہ تین عشروں پر نظر ڈالئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور سے لے کر نواز شریف کے دور حکومت تک، وہ ہر سانچے میں ڈھلتے آئے ہیں۔ اب کی بار عجب چال چلی گئی ہے کہ وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے میدان سے باہر بیٹھے ہیں اور آرزومند ہیں کہ کسی طرح نظام ہی لپیٹ دیا جائے اور وہ پھر سے معتبر ہو جائیں۔
حزب اختلاف کے ہاتھ کوئی ایسا پتہ نہیں ہے جس سے ساری بازی پلٹ دی جائے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں دھیمے سُروں پرسنگیت کی محفلیں برپا کرتی رہیں گی۔ البتہ مولانا مدرسوں کے طالب علموں کے لشکر کے ساتھ اسلام آباد کی تالہ بندی اور چڑھائی کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔
وطن عزیز میں بساط بچھانے والوں نے مہروں کی ترتیب کچھ ایسی رکھی ہے کہ نومبر میں جس تبدیلی کی لہرکے آنے کا امکان تھا وہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ معدوم ہوتا جا رہا ہے اور پھر بات 2022 تک رک جائے گی۔ البتہ ایک بات واضح ہے کہ صاحبان ذی وقار کے چہروں پر اب کی بار تشویش اور شوریدگی کے آثار واضح ہیں۔
آئی ایم ایف کی ٹیم کا تیارکردہ بجٹ عوام دوست ہے یا عوام دشمن، بہرحال خیروعافیت سے منظور کرلیا گیا ہے۔ یہاں بھی حزب اختلاف نے سارا وقت طویل تقاریر اور بے سروپا نعروں کی نذر کر دیا۔ بجٹ پر ڈھنگ سے ایک تقریر بھی سننے کو نہ مل سکی۔ حزب اقتدار کے کھلاڑی اے پی سی کی ناکامی کے بعد طنز کا سہارا لے رہے ہیں۔ مشیر اطلاعات نے سارے قضیے کو کاٹھ کی ہنڈیا سے تشبیہ دی، جاننا چاہیے کہ ادراک سے عاری حکمران اس پر بغلیں کیوں بجا رہے ہیں؟
ملک کو سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا درپیش ہے۔ پورے بجٹ اجلاس میں کوئی مثبت بات سننے کو ملی تو وہ میثاقِ معیشت کا تذکرہ تھا۔ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے رہنماوں نے حکومت کو پیش کش کی اور ادھر اے پی سی میں شرکت کرنے والی ایک جماعت کی نائب صدر نے اسے مذاقِ معیشت کے نام سے یاد کیا تھا۔ گویا اس پر تقسیم واضح ہے۔
اپوزیشن جماعتیں جب تک عوامی ایجنڈے پر اکٹھ نہیں ہوں گی، مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ پہلی بیٹھک سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن، دونوں نے ہی کاٹھ کی ہنڈیا چڑھا رکھی ہے اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔
لکھاری کا تعارف:
صاحبِ تحریر ایک نجی ٹی وی میں بطور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کام کر رہے ہیں۔